مولانا عبد المعید مدنی
(یہ وقیع تحریر ہندوستان کے تناظر میں لکھی گئی ہے تاہم آج کل ہر جگہ مسلم جماعتوں کے قائدین کی یہی حالت ہے جو اس تحریر میں مذکور ہے، اس لئے یہ قیمتی تحریر ملاحظہ فرمائیں)
اگر بنیاد نہ ہو تو گھرنہیں بن سکتا، اگرجڑ نہ ہو تو درخت سرسبز نہیں رہ سکتا، اگر ایمان و اخلاق نہ ہو تو فرد مردہ ہے، اگر اصولی اتحاد نہ ہو تو قوم بے جان ہوتی ہے، کسی بھی قوم کےلئے ایمان و اخلاق میں یکتائی، فکر و نظر میں ہم آہنگی، کردار و عمل میں مضبوطی اور ضمیر کی آزادی نہایت ضروری ہے، ان کے بغیر توانائی، ترقی، عزت اور مقام مل ہی نہیں سکتا _
اس سے آگے قیادت کا مسئلہ آتا ہے، قیادت کےلئے ضروری ہے کہ امانت دار ہو خیرخواہ ہو باضمیر و باشعور ہو، علم و بصیرت سے مزین ہو، قوت فیصلہ اور ہمت و حوصلہ رکھتی ہو، عزیمت و استقامت سے مالا مال ہو، بکے اور جھکے نہیں، شہرت اور مال و منصب کا دیوانہ نہ ہو، خود غرض اور مفاد پرست نہ ہو، ملت فروشی و ضمیر فروشی نہ کرتی ہو، احساس ذمہ داری سے سرشار ہو، اجتماعی اور سماجی شعور رکھتی ہو، قوم وملت کے نفع و ضرر کا اسے شدت سے احساس ہو اورفلاح امت کیلئے سب کچھ داؤں پر لگا دینے کےلئے تیارہو، اصولوں پرکبھی سودا کرنے کیلئے آمادہ نہ ہو _
عوام ملت اور قیادت کی ہم آہنگی اور اشتراک عمل سے کامیابی اور ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اوراگر ان کے درمیان قرب کے بجائے بعد ہو، ہم آہنگی کے بجائے افتراق ہو، ساری اکائیاں ایک دوسرے سے جدا ہوں تو کبھی ملت کو کامیابی نہیں مل سکتی، کامیابی کیلئے ان تینوں اکائیوں کو ان خطوط پر چلنا ہوگا جنہیں شریعت نے طے کر دیا ہے، تینوں اکائیوں کو شرعی خطوط پر چلے بغیر راہ نجات نہیں مل سکتی ہے، فرد اور سماج کو دینی خطوط پر چلتے ہوئے دینی قیادت کو تیار کرنا، فروغ دینا پہچاننا اور ان کا ساتھ دینا ضروری ہے، اسی طرح قیادت کے اوپر لازم ہے کہ اپنی تمام دینی خصوصیات کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائے، مسلم فرد، مسلم سماج اورمسلم قیادت کی ساری دینی شرطیں مفقود ہیں، ان کی کمی کی کسی کو پروا بھی نہیں ہے، نہ ترابط کا کوئی سلسلہ موجود ہے، اکائیاں بکھری ہوئیں، فرد و سماج بکھرے ہوئے قیادت میں مفقود ہے، انفرادیت پسندی ہرایک پر سوار ہے، امت کی حیثیت سے کسی طرح کا تصور ہی نہیں رہ گیا ہے، نہ منزل، نہ مقصد، انتشار ہی انتشار ، شیرازہ بکھرا ہوا _
صورتحال یہ ہے کہ پوری ملت اسلامیہ ہند کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے، حتی کہ فیملی اقدار، خاندانی وجاہت اور اوصاف اشراف بھی باقی نہیں رہے، فرد فرد بکھر چکا ہے، خاندان خاندان بکھر گیا ہے، ادارے، تنظیمیں اور دینی جماعتیں بکھراؤ کا شکار ہیں، ملت کے افراد اور اکائیاں علاقائی بنیادوں پر، رنگ ونسل ذات برادری اورپیشوں کی بنیاد پر بکھر گئی ہیں، مذہبی، سیاسی، سماجی اور دینی اکائیاں رجحانات، التزامات، اختیارات اور نقصانات کی بنیادوں پر انتشار اور نفاق و شقاق کا شکار ہیں، ان سب سے بڑھ کر فرد فرد ذاتی مفادات، ذاتی مصالح کا اسیر ہے اور معمولی فائدوں کی خاطر دین، اخلاق، ضمیر، احساس، غیرت، حمیت، ملت اور مفادات ملت داؤں پر لگ جاتے ہیں بلکہ بسا اوقات ذاتی مفادات کی خاطران سب کا سودا ہوجاتا ہے، ملت ایک گرتی ہوئی دیواربن گئی، ملت کے ٹوٹنے، گرنے، لرزنے، سمٹنے، سکڑنے اور بگڑنے کا دلدوز منظر روز سامنے آتا ہے، عوام حال مست اور زعماء قال مست، نہ ان کو شعور، نہ ان کو خبر، مفادات کے حمام میں سب عریاں، اس شکست و ریخت اور بحرانی صورت حال میں پتہ نہیں وہم پرستوں اور خواب پرستوں کو کیسے سیاسی بیداری یا دینی بیداری نظر آتی ہے، لگتا ہے نگاہوں کی ہوس انہیں روشنی معلوم ہوتی ہے اور آرزوئیں حقیقت نظر آتی ہیں _
ضابطوں، اصولوں، ایمان و اخلاق اور عظمت کردار کو کہاں ڈھونڈیں ملنے سے رہے، مفادات ملت کے تحفظ کی فکر کس دل میں ہے؟ صورتحال کو درست کرنے کا منصوبہ کس کے پاس ہے؟ فکر و نظر، بصیرت و بصارت کو کون استعمال کر رہا ہے؟ قیادت کی صلاحیت کہاں نظر آ رہی ہے؟ کس میدان میں تعمیر فرد و تعمیر ملت کا کام ہو رہا ہے؟ دین کے نام پر تجارت، سیاست کے نام پر ہوس رانی اور مال ومنصب، دولت و شہرت کے حصول کی للک اور تڑپ، تعلیم کے نام پر ٹھگی، سماجی خدمت کے نام پر شکم پروری، دعوت دین کے نام پر عیش پرستی اور تر دامنی، ارادوں اور نیتوں کا حال برا، دل بجھا ہوا، حوصلے پست، غفلت و بے حسی کا راج، بد اخلاقی، غبن، خیانت اور بے ایمانی کا دور دورہ، جہالت کار فرما، فقر و محتاجی حاوی، خوف و دہشت طاری، یہی ہماری ملی کمائی ہے اوریہی ہمارا خرمن حیات ہے، پھر بھی ہزاروں ایسے مفکر اور دانشور مل جائیں گے جنہیں سب کچھ خیر نظر آتا ہے اور اپنی اپنی دکانوں کو چمکانے کےلئے خیر و خوبی کے لمبے لمبے اشتہارات و بیانات شائع کرتے ہیں، ہر ادارے والے، ہر جماعت کے لوگ، ہرتنظیم و پارٹی کے ذمہ دار ایسے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں کہ جیسے ملت ان کے کندھوں پر ٹکی ہوئی ہے اورسب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے، ابتری کی حالت انتہاء کو پہنچ گئی ہے، ملت کے علماء، زعماء اور قائدین عموماً ایسے ہیں کہ ان سے خیر کا صدور مشکل سے ہوتا ہے اور خیر کا ان سے صدور ہو بھی تو ان آکے مفادات کی کوکھ سے خیر بر بنائے خیر کا صدور مشکل سے ہوتا ہے __
ابتری کی حالت یہ ہے کہ دینی اداروں اور جماعتوں میں، تعلیمی اور سیاسی اداروں اور تنظیموں میں غبن، خیانت، بے ایمانی عام ہے، جبر و استحصال، انانیت و موروثیت کا چکر چلتا ہے، معمولی جھگڑے ایسے پھیلتے ہیں کہ ان کا حل نہیں نکلتا، بڑے بڑے اتقیاء اور اصحاب جبہ و دستار ذاتی مفادات کی خاطر ایسی سطحیت پر اتر آتے ہیں اور ایسی چھچھوری حرکتیں کرتے ہیں کہ ابلیس اپنی توقع سے بڑھ کر کامیابی پر ناچ اٹھتا ہے اور چند سکوں کی خاطر یا آرزؤں کی برومندی کےلئے وہ طوفان بے تمیزی اٹھتا ہے کہ انسانیت حیران وشسدر رہ جاتی ہے، بے اعتباری کا ایسا ماحول بنتا ہے کہ شریف انسانوں کو اپنے سایوں سے بھی ڈر لگنے لگتا ہے، بے آبروئی، بیزاری اوراتہمامات کی وہ بدبو اٹھتی ہے کہ کائنات تف تف کر اٹھتی ہے، شر و فساد اور فتنوں کا وہ طوفان اٹھتا ہے اور وہ جھکڑ چلتا ہے کہ خیر کے اقدار کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں اور ان فتنوں کا لا متناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے، سیاسی جھگڑوں، انتشار اور خرافات کی بات گھٹیا تر ہے ان کے ذکر سے قلم کو آلودہ کرنا زیبا نہیں ہے، علماء اور زعماء کی حالت پر دلی تکلیف ہوتی ہے، ”امت کے یہ اسوہ وقدوہ حضرات عموماً بندگان دنیا بن گئے ہیں اور جن کے اندر خیر ہے وہ شر و فساد کی بنائی ہوئی سطح پر آنا نہیں چاہتے ہیں اور حیرت اس پر ہے کہ یہ بندگان دنیا اتنے ڈھیٹ ہیں کہ ساری دینا داریاں اپنے دل و دماغ میں انڈیلے ہوئے ہیں اور ان کا فکر و خیال گوشت پوست اورخون دنیا داری کی گندگیوں سے لت پت ہے مگراس آلودگی سے ان کے جسم و جان کو ذرا حیرانگی نہیں، نہ ان کے احساسات پر کوئی بوجھ ہے، امت مسلمہ کے قائدین اور یہ ابتری! حیرت ہی حیرت ہے مگر ان بندگان دنیا کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں، مفادات اور خیانات کے ان بندوں اورنفاق کے ان قیدیوں کی کھال اتنی موٹی ہوگئی ہے کہ گینڈے کی کھال بھی اتنی موٹی نہ ہوگی، خطاء کاری بھی اور اکڑ بھی، شرور بھی اور خیر کا نمائندہ بننے کی دعویداری بھی، احساس زیاں اور شعور نقص بڑی دولت ہے، خطاء کار اس شعور کے تحت کسی بھی وقت در کبریاء پر بازیاب ہوسکتا ہے لیکن اس شعور کے فقدان کے بعد دل و دماغ میں خیر کا پود مرجاتا ہے اور ایسے بے شعوروں اور خطاء کاروں کی خطاؤں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ارتکاب شر و فساد کو عملاً اپنے لئے واجب مانتے ہیں __
خیر کی قدروں کے تباہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ہر شے کو مادیت کی نگاہ سے آنکا جاتا ہے، اگراس کے اندر مادی فوائد کے نموو پرداخت اور کاشت کی توقع نہ ہو تو اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی، حرص و لالچ، فائدے اورمصلحت کی چکی میں ہر فرد کی شخصیت اور کردار پس چکا ہے، اونچی دکان پھیکی پکوان کا تجربہ ہرقدم پر ہوتا ہے، جس کو اسپ تازی سمجھا وہ خرِ لنگ نکلا، جس کو ہیرا جانا وہ خزف ریزہ ثابت ہوا، جن کے اندر خوشبو پیوست جانا وہ گندگی کا ڈھیر ثابت ہوا، دعاوی تمادح بانگ بلند، چرب زبانیاں اونچی ٹوپیاں، لمبی شروانیاں، دربار، جمگھٹا، بھیڑ، مریدین کی کثرت فدا کاروں کی بھیڑ! سطوت، ولولے، طنطنے مگر ان سب کے پیچھے گرگ زادگی ٹھگی عیاری اوردنیا داری، مرگ انسانیت تجھ پر کتنا ماتم کیا جائے اور ماتم بھی ہو تو کیا انسانیت کے یہ قاتل ماتم کا مذاق اڑانے کو بھی تیار نہیں رہتے ہیں _
دولت کی حرص، شہرت کی خواہش اور منصب کی طلب نے انہیں دیوانہ بنا دیا ہے اور ان کے حصول کےلئے انہیں کسی جائز ناجائز کام کرنے میں عارنہیں ہے اوراس طلب اور خواہش نے شوق علم وعمل ان سے چھین لیا ہے اور سارے ادارے متوقع ثمرات اور نتائج دینے سے عاری ہیں بلکہ بسا اوقات شر و فساد کا بول بالا ہوتا ہے، دولت کی حرص، منصب کی طلب اورشہرت کی خواہش نے آج مسلم علماء زعماء اور قائدین کو عموماً یا توبھکاری بنا دیا ہے یا کاسہ لیس یا پھر دونوں اوریہ ایک حقیقت ہے کہ دونوں نے انہیں ناکارہ بنا دیا ہے، کاسہ لیسی اور بھکاری پن میں ایک مضبوط رشتہ ہے، دونوں پن میں مبتلاء فرد کو بے شرم، چہرے کا پانی اترا ہوا، سطحی، بے کردار اور کمزور بنا دیتے ہیں، ایسوں کی کوئی پہچان اورشناخت نہیں رہ جاتی، یہ ہر جمشید کا ساغر اور ہر کس و ناکس کا کف گیر بننے کےلئے تیار ہوتے ہیں، ان کی لذت حیات اس میں پنہاں ہوتی ہے کہ تملق کریں، ہمیں است ماہ و پروین کا ورد کریں، دوسروں کی آقائیت کا کلمہ پڑھیں، انہیں خوش کرنے کا ہرجتن کریں، طفلانہ حرکتیں کریں اور میمنون کی طرح ممیائیں اورمفادات کے مطابق گرگٹ کی طرح رنگ بدلیں، آقاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں، وفادار کتوں کی طرح دم ہلاتے لیٹ جائیں اور ماتحتوں کے سامنے اکڑ اور جبروت کا مظاہرہ کریں اور ہر لمحہ ان کی گردن پر سوار رہیں، یہ ساری حرکتیں محض ایک نہایت چھوٹے کام کےلئے ہوتی ہیں ان کا حاصل فقط یہ ہوتا ہے کہ مادی مفادات حاصل ہوجائیں، فردی خواہشات پوری ہوجائیں __
مستقبل کا مورخ اگر آج کے ان قائدین کی حالت پر لکھنے کےلئے قلم کو حرکت دینا چاہے گا اور ان کا گہرائی سے جائزہ لے گا تو حیرت زدہ رہ جائے گا کہ اس عصر علم و آگاہی اورحریت میں مسلمانوں کی دینی وملی قیادت ایسی نکما گھٹیا اورناکارہ ہے، جس قوم کی قیادت بھکاریوں اورکاسہ لیسوں کے ہاتھ میں آجائے ان سے کسی خیرکی توقع عبث ہے، غیروں کے دست نگر اور دوسروں کی مسیحائی کے امیدوار قوم کو کیا دے سکتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ قوم و ملت کی خدمت کےلئے سرمایہ فراہم کرنا ایک نہایت ہی نیک کام ہے ہر دور میں ہر ملک میں ہر قوم میں تعلیم، خدمت خلق اور خدمت دین کےلئے زعماء علماء اور قائدین کو سرمایہ فراہم کرنے کی ضرورت پڑی ہے اور انہیں عوام اورسرمایہ داروں کے پاس جانا پڑا ہے اور اپیل کرنی پڑی ہے، اس دور میں اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے، اقوام متحدہ چندوں پر قائم ہے، دنیا کے ساری رفاہی ادارے چندوں سے چلتے ہیں، سارے N.G.OS کا انحصار چندوں پر ہے، سارے جمہوری ملکوں میں چندوں کے بل پر الیکشن لڑا جاتا ہے، اسلام نے خدمت دین، خدمت خلق اور خدمت ملک و قوم کےلئے چیریٹی کے راستے خاص کر کھولے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ کی بے شمار راہیں نکالی ہیں، اسلام نے اپنے ماننے والوں کے اندر جو جذبہ انفاق پیدا کیا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ مسلم اہل ثروت دل کھول کر دست تعاون بڑھاتے ہیں، جن لوگوں کو خدمت دین علم اورخدمت خلق کےلئے سرمایہ ملتا ہے، ان کی شرعی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے کہ اسے امانت جانیں، اس میں شرعی طورپر تصرف کریں، جائز جگہوں پر خرچ کریں، شفافیت کو ملحوظ رکھیں اور قوم کے سامنے حساب کتاب پیش کریں یا کم از کم رفقاء کو صحیح حساب کتاب سے آگاہ رکھیں اگر کسی فرد یا انجمن کو امانت ودیانت سے دین و ملت کی خدمت کی توفیق ملتی ہے اور بے نفسی و اخلاص کے ساتھ راہ دین میں بھاگ دوڑ ہوتی ہے تو ایسے لوگ اور ایسی انجمن کے لوگ قوم کے محسن اور مقدس لوگ ہیں اور قوم و ملت کےلئے مایہ ناز ہیں اور باعث افتخار بھی، ایسے لوگ برگزیدہ ہوتے ہیں اور نازش ملک و وطن اور اللہ کے محبوب بندے لیکن خدمت دین وملت کے نام پر آج ایک جم غفیر ایسا ہے جو اصحاب خیر سے سرمایہ فراہم کرتا ہے اور اسے ذاتی ملکیت اور مال غنیمت بنا لیتا ہے اور اس میں خود مختارانہ اور آزادانہ تصرف کرتا ہے، اسے امانت کے ساتھ صحیح مصارف میں خرچ نہیں کرتا اور پھر اسے مال موروث بنا ڈالتا ہے، پہلے کمیشن کا چکر تھا اب کلی ذاتی ملکیت کا مسئلہ ہے __
خدمت دین و خدمت خلق ذاتی اور سری مسئلہ نہیں ہے یہ ملی وسماجی مسئلہ ہے، فرد واحد کی سریت ذاتی اختیار اور فردی تصرف شرعاً غلط ہے اور اگراس امانت میں کھلی جارحیت اور غبن و خیانت ہو تو مسئلہ نازک تر اور خطرناک ترین بن جاتا ہے اور کار خیر بھی فساد اور فتنے کا سبب بن جاتا ہے، خیرات کے مال پر ایسے تماشے ایسی بو العجبیاں اور ایسی شیخیوں کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ، خون پسینے کی کمائی پر بھی شریف انسان ایسی عیاشیوں کروفر اور چم خم کا مظاہرہ نہیں کرسکتا، لمبی خیرات پانے والے بگڑے ہوئے نوابوں کی روش پکڑے ہوئے ہیں، وہی اٹکھیلیاں، وہی ناز نخرے، وہی غرور نخوت، دین کے نام پر ثروت جمع کرنے والے اور اسے ذاتی ملکیت کی طرح اپنے تصرف میں کام لانے والے در اصل بھکاری ہیں، بھکاری بھی صرف اپنی ذات ہی کیلئے مانگتا ہے اوراپنی جیب وپیٹ کیلئے مرتا ہے، افسوس! اس وقت ملت اسلامیہ ہند میں سفید پوش، کارنشین بھکاریوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، بھکاریوں اور ان سفید پوش بھکاریوں کے درمیان ذہنیت میں زیادہ فرق نہیں ہے، دونوں کے ہاں ماء الوجہ بھی نہیں ہوتا، دونوں پستی میں گرے ہوتے ہیں، دونوں کی کوئی شخصیت نہیں ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ خیراتی پیسے کے بل پر یہ بگڑے سماج میں جگہ بنا لیں اور ان کیلئے جگہ بنانا لازمی ہوتاہے اور لازماً ایسا سفید پوش بھکاری کرتے ہیں، سفید پوش بھکاری بسا اوقات تضرع، پستی، گڑگڑا نے اور اصرار و الحاح کرنے میں اصلی بھکاریوں سے آگے ہوتے ہیں، سفید پوش بھکاری رعونت، تلون مزاجی اور کاسہ لیسی میں اصلی بھکاریوں پر سبقت لے جاتے ہیں، سفید پوش بھکاری رعونت، تلون مزاجی اورکاسہ لیسی میں اتنے آگے ہوتے ہیں کہ ایک خراب ترین دنیا دار اس نچلی سطح تک نہیں اتر سکتا، ان سفید پوش بھکاریوں کو بھکاری کہنا مال غیر کو اپنا بنانے، اپنا سمجھنے اوربے اصولی طور پر اپنی خواہش نفس کے مطابق عیاشی، تن پروری اور جائیداد و پراپرٹی بنانے کے سبب ہے، ان کیلئے یہ ہلکا خطاب ہو سکتا ہے ورنہ خیانت، غبن، فصول خرچی اور بے ایمانی کی کون سی فساد کی ادا ہے جو ان سے چھوٹی ہوئی ہے __
ان بھکاریوں میں سب سے آگے وہ لوگ ہیں جو دانشور قسم کے ہیں، یہ تھوک کے حساب سے جھوٹ بول سکتے ہیں، جھوٹ کو سچ بنا کر ڈھٹائی سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ انہیں آتا ہے اورکبھی پوری ملت اسلامیہ ہند سے کم پر سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں، یہ شعوری مسلمان اور مسٹر قسم کے لوگ ہیں، ملت کا درد ان کے اندر اتنا ہوتا ہے کہ یہ درد ان کے پورے جسم سے اٹھتا ہے خصوصاً جیب اور شکم سے اٹھتا ہے، درد ملت سے سارا جسم چھلنی ہے، درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے، دانشور قسم کے ان بھکاریوں کی ٹیم بھی ہے اور انفرادی شکل بھی ہے، یہ یورنیورسٹی، ہاسٹل، ہاؤسنگ اور سیاسی ترقی سے کم کی بات نہیں کرتے اور ان کا وائزن بڑا ہیوی ہوتا ہے، یہ جب بھیک مانگنے اٹھتے ہیں تو اسخیا کی سخاوت کو چیلنج کر دیتے وزارتوں اور اوقافوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں، انہیں یہ بتلاتے ہیں دیکھو حکومت ہند ہمارے دم سے قائم ہے، دین کے ہم ٹھیکیدار ہیں، مسلم سماج پر ہمارا کنٹرول ہے، کار دین ہم ہی چلاتے ہیں، مسلم بچوں کی تعلیم کے ہم ذمہ دار ہیں، غیرمسلموں میں دعوت و تبلیغ کی ہلچل ہم سے بپا ہے، بیواؤں یتیموں کو ہم پالتے ہیں، ہماری جھولی بھر دو ورنہ قیامت کے روز ہم تمہارا دامن پکڑیں گے، دانشور قسم کے بھکاری تھوک کے حساب سے جھوٹ بولتے ہیں، پلان اور منصوبوں کا جال بچھاتے ہیں، لب ولہجے کو جذبات کے آنسوؤں میں بھگو کر باعث کشش بناتے ہیں، اپنے جھوٹے کارناموں کوضرب وتقسیم کے حسابوں کے ساتھ سناتے اور پیش کرتے اپنی قابلیت صلاحیت اورسچائی کی قسمیں کھاتے ہیں اور جب توقع سے بڑھ کر زر و مال مل جاتا ہے تو آل، اولاد، خاندان، دوست اور احباب کے مستقبل کو مزدھر بنانے کا منصوبہ بنانے لگتے ہیں اوربیٹھ کر سازشیں کرتے ہیں مکر فریب کی رپورٹیں بنتی ہیں، یہ سارے کے سارے مطلب پرست، مادہ پرست اور روباہ صفت ہیں اوربھک منگائی کی عادت میں اتنا پختہ ہوتے ہیں کہ زر و مال کے سوا انہیں کبھی کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے، مفادات کے حصول کے ایسے دیوانے ہوتے ہیں کہ نصف النہار میں بھی خواب دیکھتے رہتے ہیں، ان کے دل وجان حب مال کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں اور اس کی خاطر تقارب وتوادد کو بھی برقرار رکھتے ہیں _
ایسے دانشور بھیک منگے قسم مولویوں سے اس فن میں ہزار گنا آگے ہیں، ایسے بھکاری خاص کر لکھنؤ، علی گڑھ، دہلی اور ممبئی میں ہیں اور ان کی طرح دوسرے درجے میں دوسری جگہ بھی ہیں، ان میں کوئی دین وملت کا ٹھیکدار ہے کوئی علم کا، کوئی سماج کا، کوئی تہذیب و ثقافت کا اور کوئی پوری ملت اور دین کا، کوئی ٹی وی کے سہارے اور حوالے سے بھیک مانگ رہا ہے، کوئی تعلیم کے نام پر مانگتا ہے، کوئی مطالعات کے نام پر، یہ ننگ قوم وملت کیڑے ہیں، کہیں بھی مال وزر کے حصول کیلئے جاسکتے ہیں، اساڑھ کی مچھلیوں کی طرح بولائے ہوتے ہیں، ان بھکاریوں میں ایسی ایسی بیر بہوٹیاں ہیں کہ اصلی بیر بہوٹیاں ان کے سامنے پانی بھریں، ان کے خیالات ایسے بھنگ و دھتورے ہیں کہ صحیح العقل سلیم الطبع انسان ان کی دمک کو دیکھ کر چکرا جائے اور ان کی بوئے بے مثال سے بے ہوش ہوجائے، ان متسول دانشوروں کے بجٹ اور منصوبے کروڑوں میں جاتے ہیں، اخباروں میں ایک گروہ متسولین کے ایک عظیم منصوبے کی خبر شائع ہوئی، پچپن سو کروڑ شاید منصوبہ سازوں کی جیب میں پچپن روپئے نہ ہوں مال مفت دل بے رحم، خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں جینے اور کشکول گدائی رکھنے کا یہی فائدہ ہوتا ہے، اڑنے چہکنے مچلنے میں آسانی ہوتی ہے اور بڑا لطف بھی آتا ہے، ان متسولین کے پاس سیاسی ذوق بھی ہے اور سیاسی جال میں نیتاؤں شریفوں رذیلوں اور نہ معلوم کن کن لوگوں کو اسیر کر رکھا ہے اور بھانت بھانت کے سیاسی جانوروں کو پال بھی رکھا ہے، ان کی لنگڑی بے منفعت اورشیخ چلیوں والی سیاست کاری فقط دماغ کی کھجلی دورکرنے کےلئے ہوتی ہے اورمحض الھڑپن اور پھکڑپن، ان میں اڈوانی قسم کے متسول کا رواں نکالنے نیتاؤں اور پبلک میں بھاؤ بڑھانے کے بڑے شوقین ہیں، ان کے تعلقات نیتاؤں سے تاریکی میں بھی بنتے ہیں اور دن کے اجالے میں بھی اور جو بھی پوزیشن میں ہو وہ ان کے ڈیڈی اور دیدی ہوتی ہیں، یہ ڈھٹائی کی سانس لیتے ہیں اور بے شرمی کا لقمہ کھاتے ہیں، علم سے انہیں بیر ہے تاکہ علم کی بیڑی پاؤں میں نہ پڑئے اور نشاط کار میں کمی نہ آئے اور کرایہ کے قلمکاروں سے تعلق ہے تاکہ یافت میں کمی نہ آجائے اوران تیامی پر ان کا راج قائم رہے __
ان سے زیادہ خطرناک وہ سرمہ باز طروں اور کشتی نما ٹوپیوں والے کفش بردار کاسہ لیس سیاسی مولوی ہیں جو ملت کا دہائیوں سے سودا کرتے ہیں سیاست کی کمائی کھاتے ہیں اور باوجود ریش اطول جبہ دراز خونخوار بھیڑیوں کی طرح ہردم باہم لڑتے اور دانت نکالتے رہتے ہیں اور نذرانہ عقیدت بھی وصول کرتے ہیں، دہائیوں سے تین پشتوں سے ذلت کی روٹی کھانی ان کی زندگی کا مشغلہ ہے، حال ہی میں اس قبیلے کے ایک سورما نے جے بھیم کے نعرے کے ساتھ ایک دلت پارٹی میں داخلہ لیا ہے، اس شوق کو پورا کرنے کےلئے اس قبیلے اترا کھنڈ یوپی کی یاترا کی، کانگریس، لوک دل، ایس پی، بی ایس پی کا طواف کیا ہے، پتہ نہیں کب تک یہ کاسہ لیسی بے ضمیری اور بے شرمی کا سفر جاری رہے گا؟ ملت کی سودا گری کی قیمت کھانے کا بہت اچھا اثر پڑا ہے، پوری نسل ہی ذلت کی خاک چاٹنے کیلئے تیار ہے، اس کے ساتھ یہ شریف ذات چندہ خوری اور چندہ بٹوری اور ذلت چٹوری میں بھی ماہر ہے، گویا اس ذات شریف میں دونوں خوبیاں جمع ہیں، بھکاری پن بھی اور کاسہ لیسی بھی، یہ ذات شریف مجمع البحرین ہوئی، جس قوم میں ایسے یکتائے روزگار ہوں اس قوم کی بربادی کیلئے کسی دشمن کی ضرورت ہے؟ _
سیاسی کاسہ لیس مسٹروں اورمولویوں کی ایک فصل ہے، ایک وحشی ڈار ہے، جو دنیا کے سارے رذائل کو بخوشی اپنائے، اٹھائے اور نجام دینے کیلئے تیار ہے، گاؤں تحصیل، قصبہ تھانہ صوبہ اور ملک کے پیمانے پر ایسے رسوائے زمانہ سیاسی حیوانوں کی بھیڑ لگی ہے قطار اندر قطار ان کا تانتا بندھا ہوا ہے اور سارے مجرم نیتاؤں کے کارواں میں شامل، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور انتظار میں رہتے ہیں کہ ان کی طرف کوئی ٹکڑا پھینک دیا جائے، یہ بندگان رذالت قوم کو سوائے رسوائیوں کے اور کیا دے سکتے ہیں، حیرت ہے یہ سیاسی ذلیل ذات، دشمن انسانیت دہشت گرد،مسلم دشمن پارٹیوں کے ٹھگ خونخوار اور ڈاکو لیڈروں کی جوتیاں سینوں سے لگائے پھرتے ہیں، بھکاریوں کی ایک قسم دنیا دار علماء سوء کی ہے، اگر انہیں یافت کی امید ہو تو کہیں بھی جا سکتے ہیں، کہیں بھی لائن لگا سکتے ہیں، بات بنانی انہیں آتی ہے اور ہر ایک منہ پر ہاں کہنا وہ جانتے ہیں، شکل و صورت دیندارو ں کی سی اور ہرایک پر فدا ہونے کو تیار اور تنہائی میں بالکل اس کے الٹا جومحفل میں ہے، ہوس زر میں طاق مگر غم ملت میں گھل گھل کرموٹے، یہ بھکاری سماج کےلئے گھن بن گئے ہیں، اقدار حیات، مروت و اخلاق کے دشمن ہیں اور ملت کےلئے ننگ ہیں، نفاق کوئی ان سے سیکھے، مکر کے ماہرآراجیت کے فنکار لوگوں کو بے وقوف بنانے میں ماہر یہ ہیں، یہ روگ اس قدر بڑھتا جا رہا ہے کہ لاعلاج ہوا جا رہا ہے، ان سے فتنہ وفساد زیادہ پھیلتا ہے اور خیر کم جو لوگ بے دین فسادی بے آبرو ننگے اورخائن ہوں، ان سے خیر کی امید کیسے کرسکتے ہیں؟ ایسے فاسق وفاجر علمی و دینی محفلوں میں صدر محفل بننے کے بھی خواہش مند رہتے ہیں اور بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ انہیں ہار مالا بھی پہنانے کےلئے تیار رہتے ہیں اور بہت سے متفلسف یوں بھی فیصلے سناتے ہیں کہ کوئی بات نہیں کام تو ہوتا ہے کھالینے دو آدھا، آدھا تو قوم کو دے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو امانت میں معمولی خیانت کو بھی جہنم کا پیش خیمہ قرار دیں اور امتی دین کا سارا اختیار لینے کو تیار، اباحیت، غبن، فساد اور بے ایمانی کو جائز قرار دینے پر تلے نظر آئیں، ان دنیا دار، روباہی صفت دانشوروں اور علمائے سوء کو چاہیے کہ ایک مقدس کام کو جس طرح پامال کرتے ہیں اس سے باز رہیں یا کم از کم ہاتھ میں کشکول رکھا کریں تاکہ لوگوں کو یہ اندازہ ہوجائے کہ یہ قوم وملت کے خادم نہیں، یہ ڈھونگی ہیں، محض اپنا پیٹ پالتے ہیں اور شیخی بگھارتے ہیں اور بے خبر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کوئی ان کا محاسبہ کرنے والا نہیں، اس لئے ان کی اکڑ اور نخوت بڑھتی جا رہی ہے _
یہاں پھر اس حقیقت کا اعادہ ضروری ہے کہ جو اخلاص اور امانت داری کے ساتھ دین وملت کی خدمت کرتے ہیں اورسرمایہ فراہم کرنے کےلئے گلی گلی کی خاک چھانتے ہیں، وہ انبیائی مشن میں لگے ہیں، ان کا احترام کرنا ہر ایک کے اوپر لازم ہے، وہ قوم کے محسن ہیں، ملت ان کے دم سے زندہ ہے، ان کی حرارت ایمانی سے سماج میں توانائی برقرار ہے، وہ ملت کےلئے سرمایہ ناز ہیں اور نازش قوم وملک ہیں، اللہ ان کی محنتوں کو بار آور کرے (آمین)