Maarif

logo

مدیر: محمد اسلام

مدیر: محمد اسلام

جدید سائنس __ چند سوالات

سرفراز احمد (نقاد و دانشور)

جدید سائنس کی تخلیق کردہ دنیا میں انسان فکر و عمل کے ہر زاویے سے وہی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہے جس کی ہر شرط جدیدیت کی طے کردہ ہے اور مقصد سرمایہ داری کا فرد اور معاشرے پر مزید تحکم ہے، نتیجتاً شرف انسانیت سے عاری ایسی تہذیب غلبہ مستحکم کرتی جا رہی ہے جو کسی الوہی مذہب میں جواز نہ رکھنے کی وجہ سے سر تا سر تخریب ہے، ایک ایسی تخریب جس کے متوازی ہونے والی سرمایہ دارانہ تعمیر کی انتہاء کے نتیجے میں کسی آسمانی انقلاب یا قیامت کے ظہور کے کسی اور شے کو جواز نہیں ملتا، سائنس کے متعلق عالم اسلام کا عمومی رویہ اسے برتنے کے نتیجے میں ملنے والے وقتی فوری اور جزوی فائدے کے تناظر میں اسے قبول کرنے کا رہا ہے اور عموماً اسے ہمہ جہت و ہمہ گیر تہذیبی تناظر میں زیر بحث لانے سے گریز کیا جاتا رہا ہے، نتیجتاً ایک ایسا ذہن تیار ہوا ہے جو سائنس کی تباہی کو فطری تصور کرتے ہوئے اس کے سامنے یوں سرنگوں ہے کہ خود بلکہ پوری تہذیب پر ہونے والے جبر کو نہ صرف برادشت کر رہا ہے بلکہ اس جبر کے جواز پر کوئی سوال بھی نہیں اٹھا رہا، درد، تکلیف اور الم سہتا یہ انسان یہ سوال اٹھانے سے قاصر ہے کہ یہ خوشنما مار جو مجھے ڈھائی تین سو سال سے پڑ رہی ہے، انسانی تاریخ اس غیر فطری حالت میں ظلم سہتے ہوئے زندگی گزارنے پر خود کو مجبور پانے کی تاریخی نظیر سے کیوں خالی ہے؟
ایسے بلکتے، سسکتے اور تڑپتے انسان کو اس جبر کا مسلسل سہنا مطلوب، مستحسن اور آئیڈیل باور کرایا گیا ہے، درج ذیل سوالات سائنسی دنیا میں جیتے اس انسان سے ہیں جسے سائنسی سفر کے آغاز میں ابتدائی طور پر جو خواب دکھائے گئے ڈھائی تین سو سالہ تہذیبی سفر کے بعد اس خواب کی تکمیل تو درکنار مجموعی طور پر اس کی زندگی سطح زمین پر اب تک کا سب سے بڑا عذاب ثابت ہو رہی ہے، پے در پے ظلم سہتے اس انسان کو اپنی حالت پر سوال کرنے یا سوال اٹھانے کی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا ہے، درج ذیل سوالات اسی انسان کے سامنے غور و فکر کےلئے رکھے گئے ہیں __

سائنس و سرمایہ داری کا گٹھ جوڑ

٭ کیا معاصر جدید سائنس اپنے وجود اور بقا کےلئے سرمایے کے سرکل پر انحصار سے دستبردار ہوسکتی ہے؟

٭ کیا عصر حاضر میں ایسی سائنسی تحقیق معقول سمجھی جاتی ہے جس کا مقصد کسی بھی سطح پر سرمایے میں اضافے کے علاوہ کچھ اور ہو؟

٭ تحقیق سے حاصل شدہ نتائج پر عمل تو درکنار کیا محض تحقیق کی ابتدا ہی سرمایے کے بغیر کی جاسکتی ہے؟

٭ کسی سائنسی تحقیق کی معقولیت، معنویت اور افادیت سرمایے کے علاوہ کچھ اور ہونے کی صورت میں اس تحقیق کی قبولیت و پذیرائی کے کتنے امکانات ہیں؟ مثلاً تیسری دنیا کے دیہاتوں میں بنی جامعات سے لے کر MIT تک اور دیگر سائنسی تحقیقاتی اداروں میں ہونے والی تحقیقات کی کیا وقعت ہوگی جس کے استعمال کے نتیجے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حال یا مستقبل میں سرمایے میں اضافے کا عمل ممکن نہ رہے؟

٭ کیا ایسی سائنسی تحقیق کی کوئی وقعت ہے جس سے علم میں اضافہ تو ہو مگر سرمایے میں اضافے کےلئے وہ استعمال نہ کی جاسکتی ہو؟

٭ کیا آج نظم سرمایہ داری کے جبر میں زندہ فرد کےلئے سرمایہ میں مسلسل اضافے کیلئے جدید سائنس کے مہیا کردہ ٹولز کو نظر انداز کرکے کسی اور روایتی طریقوں سے اس مقصد کا حصول ممکن ہے؟

٭ کیا سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر دنیا میں بننے والا صنعتی کلچر جو اشیاء پیدا کرتا ہے اس کا مقصد کسی معاشرتی اور سماجی ضرورت کو پورا کرنا ہے یا ضرورتیں تخلیق کرتے چلے جانا؟ کیا ضرورتوں کو مستقل تخلیق کرنے کی حکمت عملی وضع کئے بغیر سرمایےمیں مستقل اضافہ ممکن ہے؟

٭ کائنات مسخر کرنے میں مصروف عمل سائنس اس تسخیر کامجموعی طور پر مقصد آزادی میں اضافے کے علاوہ کیا رکھتی ہے؟ یوں تسخیر کائنات کا عمل کیا سرمایے میں اضافے کے علاوہ کسی اورمقصد کیلئے ہے؟ ( کہ سرمایہ تو آزادی کی ٹھوس شکل ہے)

٭ مذہب کو استعمال میں لاکر دولت (نہ کہ سرمایہ) کے حصول کی انفرادی مثالیں روایتی معاشروں میں بھی ملتی ہیں لیکن مذہب کو سرمایے میں مستقل اضافے کے حصول کےلئے ممکن کیا سائنس نے ہی نہیں بنایا؟ (اس کےلئے پرنٹنگ پریس سے لے کر تا حال الیکٹرونک و سوشل میڈیا پر مذہبی مواد کا اس مقصد کے استعمال کئے جانے کی تاریخ مد نظر رکھنی چاہئے)

٭ کیا سائنس نے دیگر موافق و مخالف مابعد الطبعیات رکھنے والے علوم کےلئے یہ بینچ مارک نہیں سیٹ کیا کہ وہ بھی سرمایے میں مستقل اضافے کی اس قدر کو جبراً قبول کریں نہیں تو ان کی بقاء مشکل ہے؟ یوں سرمایے میں مستقل اضافے کی اس قدر کے جبراً نفاذ کے ذریعے دیگر علوم کی اوریجنیلٹی متاثر کرنے کا سہرا بھی سائنس کے سر نہیں سجا؟

سائنس و قرب خدا

٭ کیادوری و قرب خدا کے حصول کے طریقے اہل مذہب کےلئے ہمیشہ سے واضح نہیں رہے؟

٭ اپنی مجموعی روحانی و اخلاقی حالت میں جدید سائنس سے پہلے کے معاشرے بہتر تھے یا بعد کے؟

٭ اہل مذہب کے اکابرین، علمائے دین، صوفیائے دین، فقہاء، متکلم، محدث اور مجاہد ہی کیوں رہے ہیں سائنس دان کیوں نہ رہے؟

٭ کیا جدید سائنس سے قبل قربِ خدا کے وسائل میں تشنگی تھی؟ اگر ہاں تو بعد میں مجموعی طور پر سائنس نے حصول قرب خدا کی صلاحیت کیوں متاثر کی؟

٭ کیا معاشرے جدید سائنس سے قبل جدید سائنس یا اس کی پیدا کردہ معاشرت کی تعمیر میں دینے والا وقت مجموعی طور پر خدا کے احکام بجا لانے یا ان احکام کی بجا آوری کےلئے سازگار معاشرت کی تعمیر میں نہیں صرف کرتے تھے؟ کیا جدید سائنس کی برپا کردہ دنیا میں خدا کے احکام و معاشرے و خاندان کے حقوق کی ادائیگی کیلئے درکار وقت نکالنا ممکن رہا ہے؟

٭ سائنس کی دریافتوں کے ذریعے سامنے آنے والی کچھ اشیاء کے اندر موجود نظم و ترتیب کو دعوت الی اللہ کےلئے استعمال کرتے ہوئے کیا ہمیں یہ یاد نہیں رکھنا چاہئے کہ بے شمار اشیاء کے اندر موجود بے ترتیبی و بے نظمی کا خالق بھی اللہ ہی ہے، پھر اس طرح ترتیب و نظم کو کسی خدا کے سرکش کے سامنے پرکشش بنا کر پیش کرنے کی حکمت عملی کتنی کارگر ہوسکتی ہے؟

٭ کیا اشیاء میں موجود ترتیب کی دریافت کی خاطر کئے گئے سائنسی تجربات پر آنے والے اخراجات کی قیمت محض اس لئے ادا کی جائے کہ سینکڑوں بنیادی دلائل کی موجودگی کے باوجود محض ایک غیر متاثر کن دلیل مزید پیش کی جاسکے؟

٭ کیا سائنس کے برپا کردہ صنعتی کلچر کے پھیلاؤ کے نتیجے میں فطرت کے اندر وہ uniformity برقرار رہ سکتی ہے جس کی موجودگی میں ہی نظم و ترتیب کا مشاہدہ ممکن ہو؟

٭ کیا سرمایہ دارانہ سوچ و فکر رکھنے والا اور خدا کی رضا کے طالب کے مشاہدۂ کائنات کا مقصد، زاویہ نگاہ اور طریق کار ایک ہی ہوتا ہے؟

٭ کیا سائنس کی ہر گوشہ زندگی پر موجود سائنسی تحقیقات اورسائنس کا علتوں کی محض سائنسی توجیہات کے واحد بیان ہونے پر اصرار نے مجموعی طور پر خدا پر توکل کے دائرے کو وسیع کرنے کے بجائے سکیڑ کر نہیں رکھ دیا؟ اس ضمن میں سائنسی توجیہات کرتی ملحدین و متشککین کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد سائنس اور حصول قرب خدا میں تعلق کے کس پیٹرن کو واضح کرتی ہے؟

کون سا مشاہدہ مطلوب ہے؟

٭ کیا کوئی بھی (سائنسی و غیر سائنسی) مشاہدہ اپنے قبل از مشاہدہ نظری پوزیشن، مابعد الطبیعاتی پوزیشن اور مقصد سے ماوراء ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس دعوے کی کیا حیثیت ہے کہ یہ محض مشاہدے سے حاصل شدہ علم ہے؟

٭ کیا وہ نظری پوزیشن، مابعد الطبیعات، مقصد کسی تصور خیر سے منسلک نہیں ہوتا، نتیجتاً کیاکسی بھی سائنسی و غیر سائنسی مشاہدے سے قبل اس سوال کو نظر انداز کرنا ممکن ہے کہ مشاہدہ کس کےلئے؟ نیز کیا کسی بھی مشاہدے سے حاصل ہونے والے نتائج صرف تجربے کے دوران رکھے گئے طبعی constraint ایک جیسے رکھنے کی وجہ سے ایک جیسے ہوں گے؟

٭ سائنس سے متاثر معاصر مذہبی آدمی قرآن میں سخرلکم کے تحت بیان کردہ بات کو ان آیات سے کوریلیٹ کرنے کی صلاحیت سے کیوں محروم ہے جس میں انسانی زندگی کا مقصد تاکہ تم فلاح پاؤ بیان ہوا ہے، کیا وہ سائنس سے اتنا متاثر ہوچکا ہے کہ مطالعہ قرآن میں بھی reduction جیسی سائنٹیفک میتھڈ پر عمل کر رہا ہے؟

سائنس و الحاد

٭ کسی ملحد کو خدا کے وجود اور اس کے متحرک خدائی کردار کے خلاف جو دلیل آج سب سے زیادہ مطمئن کرتی ہے وہ اپنی اصل میں کیا سائنسی دلیل ہی نہیں ہے؟

٭ اگر یہ دلیل سائنسی ہی ہے تو اس کا مطلب کیا یہ نہیں کہ موجود سائنسی غلبہ کی طرح الحاد کی تحاریک بھی سرمایے کے جبر کا نتیجہ ہی ہے؟

٭ کیا جدید سائنس کی نئی تحقیقات و دریافتوں نے انسان کو یہ باور نہیں کرایا کہ خدا سے منسوب متعدد ایسے امور جن میں مداخلت میں اب تک انسان خود کو بے بس پاتا تھا ان کی ماورائیت اور اسے کسی ان دیکھی طاقت سے منسوب ہونے اور اس طاقت کا اس پر کنٹرول ہونے کا انکار کر دے؟

٭ کیا سائنس کا خدائی امور کی سائنسی علتوں کا بیان خدا پر انسان کے توکل کو متاثر نہیں کرتا؟

٭ ملحدین و متشککین کو یہ یقین کیا سائنس ہی نہیں دلاتی کہ کائنات میں خدائی طرز کا تصرف اب انسان کےلئے نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ اس سے پہلے خدا سے منسوب تصرف کے عقائد حماقت اور جھوٹ تھے؟

سائنسی اخراجات

٭ کیا سائنسی تجربات کے مجموعی بے تحاشا اخراجات آج کی دنیا افورڈ کرسکتی ہے؟

٭ تیسری دنیا کی مجموعی معاشی حالت کے پیش نظر ایسے سائنسی تجربات میں وسائل جھونکنے کا کیا جواز ہے جس کا مقصد تسخیر کائنات میں پیش رفت ہو؟

٭ آج کی دنیا کے انسانوں کےلئے ان اخراجات کے نتیجے میں کئے جانے والے تجربات کے بجائے بنیادی ضروریات کی فراہمی کو نظر انداز کرنا کیا عالمی سفاکی نہیں؟

٭ اس طرح کے سائنسی تجربات کس بنیادی ضرورت کو پورا کرتے ہیں؟

٭ کیا ریاستی سطح پر لوٹ مار اور اسی سے ترقی کا پہیہ رواں رکھ کر سرمایہ جمع کرنے والے استعمار کی طرح ہر چھوٹا خصوصاً تیسری دنیا کا کوئی ملک بھی سائنسی ترقی کی اس مسابقت میں حصہ لینے کے قابل ہے؟

سائنس ایک تدریجی عمل

٭ کیا سائنسی ترقی کی موجودہ شکل کسی تدریجی عمل کے نتیجے میں آج ہمارے سامنے موجود ہے یا کم و بیش ڈھائی تین سو سالہ تاریخی وقوعہ ہے؟

٭ کیا اس جوہری فرق پر مبنی تاریخی عمل کے پیچھے مغرب کے فکر و فلسفے اس کی مابعد الطبیعات اس کے علم، خیر، اخلاق کے تصورات موجود نہیں؟

٭ کیا سائنس کو مغرب کے فکر و فلسفے سے الگ کرکے محض از خود وقوع پذیر ہونے والے تاریخی عمل کے طور پر دیکھنا علمی دیانت ہے؟

٭ اگر یہ تاریخ انسانی کا تدریجی عمل ہے تو اس کی رفتار پچھلی تین صدیوں میں linear کے بجائے exponential کیوں ہے؟

٭ کیا innovation تاریخ انسانی کے ہر دور میں رہی ہے؟

٭ کیا تاریخی طور پر اپنے عمل میں سرمایے اور innovation کو الگ کرنا ممکن ہے؟

جدید سائنس اور معاشرہ

٭ کیا ہمارے ارد گرد جدید تہذیب کی پیدا کردہ لاکھوں اشیاء مجرد وجود رکھتی ہیں یا ایک خاص تہذیب کا outcome ہیں؟

٭ کیا جدید معاشرت کو مستقل اختیار کرتے ہوئے زندگی کا حصہ بنانا معاشرے کے تصور خیر پر اثر انداز نہیں ہوتا؟

٭ مذہبی معاشرت کے تسلسل اور جدید سائنس کی مسلط کردہ تہذیب میں دوئی پاٹنے سے کس معاشرت کے غلبے کا زیادہ امکان ہے؟

٭ کیا سائنس انسانی زندگی میں مسائل پیدا اور حل کرتے رہنے کا کام متوازی طورپر نہیں کرتی؟ اگر ہاں تو اس دعوے کی کیا حیثیت ہے کہ سائنس نے ہمارے مسائل حل کئے ہیں؟

٭ کیا جدید سائنس نے معاشرت کے بعد بتدریج اقدار کی تبدیلی نہیں کی؟اگر ہاں تو اس کی آلاتی تفہیم کیا سادگی کی انتہا نہیں؟

٭ کیا جدید سائنس سے متمتع معاشرت اور روایتی انسانی رشتوں کے احترام پر مبنی روایتی معاشرت کا بیک وقت حصول ممکن ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ جدید معاشرت خاندان جیسی بنیادی اکائی کو مسلسل تہس نہس کر رہی ہے؟

جدید سائنس اور قتل و غارت گری

٭ دنیا تصورات خیر کی کشمکش اور غلبے کی ایک تاریخ رکھتی ہے لیکن کیا کسی تصور خیر کے غلبے کے لئے mass destruction کے آلات و ہتھیار کی فراہمی جدید سائنس ہی نے ممکن نہیں بنائی؟

٭ کیا mass destruction کسی مذہب کو اپنے غلبے کے لئے مطلوب ہے؟مذاہب میں اسلام بھی ابلاغ مذہب میں حائل رکاوٹوں اور شان و شوکت توڑنے کا داعیہ رکھتا ہے ناکہ mass destruction کا؟

٭ mass destruction سرمایہ داری کے غلبے کے علاوہ اور کس کو مطلوب ہے؟

٭ کیا mass destruction کے ہتھیار محض اپنی صنعتی پیداوار سے ہی سرمایے کے سرکل کو جاری رکھتے ہیں؟ اس نوع کے اسلحے سے خوف پیدا کرنا، اس خوف کو بیچنا، اس خوف سے چھٹکارے کیلئے معاشرے کے لئے ماہرین نفسیات مہیا کرنے کو ممکن بنانا،اس سہمے ہوئے ذہن انسانی کو اس غیر فطری حالت خوف سے سکون میں لانے کیلئے علوم وضع کرنا ،اس عمل کے پورے دائرے کو مسلسل جاری رکھنے کیلئے مطلوبہ وسائل سائنس ہی نے مہیا نہیں کئے؟

سائنس اور ایمان

٭ کیا عامی اور تقلید ہر زمانے (بشمول معاصر جدید عہد کے) اور ہر معاشرے کی ضرورت نہیں ہے؟

٭ advanced scientific knowledge تو درکنار کیا پاپولر سائنس کو verify کرنا اور اپنی انفرادی تجربات کی بنیاد پر قبول و رد کرنا ہر ایک کےلئے ممکن ہے؟ نتیجتاً ایک عامی کے لئے ایمان لانے کے سوا کونسا رویہ ممکن ہے؟

٭ کیا سائنسی علمیت کے غلبے کے نتیجے میں معاصر جدید عہد کے انسان کی کسی سائنسی دریافت یا دعوے کی محض خبر سننے سے اس سائنسی دعوے سے بننے والی ایمانی کیفیت اور جدید سائنس سے قبل کسی مذہبی آدمی کی ایمانی کیفیت میں کوئی خاص فرق ہے؟

٭ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں عامیوں کا وہ کثیر گروہ ختم ہوجائے جو ایمان لانے کے بجائے کسی بھی ذریعے سے تصدیق کے عمل سے گذر کر ہی تیقن والی زندگی بسر کریں؟کیا یہ رویہ اہل مذہب سے ہی مخصوص ہے؟

٭ کیا جس طرح اہل مذہب عقائد پر ایمان لانے کے بعد ان عقائد کی وضاحت، تشریح، دفاع عقل سے بھی کرتے ہیں بعینہ اسی طرح سائنس پر ایمان لانے والا یہ عامیوں کا کثیر گروہ بھی سائنسی دعوؤں کے سچے ہونے کا ایمان لا کر اس کی وضاحت، تشریح، دفاع عقل سے نہیں کرتا؟

٭ یوں کیا اہل مذہب اپنے دعوی ایمان میں قبولیت کی بنیاد سے واقف جبکہ سائنس پر ایمان لانے والے اس ایمانی بنیاد سے ناواقف نہیں ہوتے؟ یوں کیا منطقی و عقلی طور پر بہتر پوزیشن اہل مذہب کی نہیں ٹھہرتی؟

٭ عامیوں سے قطع نظر کیا پہلی سطح کے سائنسی ماہرین (مثلاً مٹیریل سائنس میں BHADESHIA HARSHAD وغیرہا) کا پیچیدہ علمی کام تیسری سطح کے ماہرین مثلاً سائنسی جامعات کے طلبہ و اساتذہ کے لئے بھی قابل فہم ہوتا ہے؟

٭ کیا سائنسی دعوؤں کی تضاداتی تاریخ کا سفر رک چکا؟ اگر یہ سوال کہ مستقبل میں کتنی بار پیراڈائم شفٹ کا عمل ہوگا؟ ایک فلسفہ سائنس کے آدمی سے پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ کچھ علم نہیں، کیا اتنی غیر یقینی صورتحال میں ایمان لانے کے علاوہ کوئی راستہ بچتا بھی ہے؟

سائنس اور عیسائیت

٭ کیا سائنسی اور الہامی علوم کی تقسیم اس طرح سے کرنا کہ سائنس ’’ کیا ہے‘‘ اور ’’کیسے ہے‘‘ کا جواب دیتی ہے جبکہ مذہب ’’کیوں ہے‘‘ یا ’’کس مقصد کیلئے ہے‘‘ کا جواب دیتا ہے، کرنے کے بعد اس مقدمہ کو کھڑا کرنا والا نفسیاتی طور پر اپنے ذہن کے اندر دونوں علوم کی مساوات کو قبول نہیں کئے ہوئے، نتیجتاً کیا اس طرح سوچنے والا دائرہ کار کی یہ تقسیم کرنے کے بعد یہ پوزیشن لینے کے قابل رہے گا کہ اس علم کو کس علم کی شرائط پر صحیح مانا جائے گا؟

٭ مذہبی عقیدے کی سائنسی تعبیر کرنے کے نتیجے میں اگر سائنس میں پیراڈائم شفٹ یا کسی نظریے کے متروک ہوجانے سے کیا کسی عقیدے کا غلط ہونا ثابت ہوجاتا ہے؟ کیا عیسائیت نے تاریخ میں جو شکست کھائی وہ سائنس سے کھائی یا مذہب کی سائنسی تعبیر سے ملنے والی صدیوں کی طمانیت کو اپنے عقائد کے اثبات کےلئے استعمال کرنے کی فکری غلطی کے وجہ سے؟

٭ کیا عیسائیت اپنے عقائد کے اثبات کے لئے سائنس کو صدیوں تک استعمال کرنے کے بجائے اگر اپنے عقائد کے رد میں سامنے آنے والے سائنسی دعوؤں کوایک خاص و غیر مفید علم کے غیر متعلق دعوےکے طور پر لیتی تو وہ نزاع پیدا ہونے کا امکان تھا جو تاریخ کا حصہ ہے؟

٭ کیا آج اس شکست سے نہ سیکھ کر اسلام کی سائنسی تعبیر (اور جہاں ممکن نہ ہو وہاں اس توقع سے خود کو خوش کرنا کہ مستقبل میں اسلام کی سائنسی تعبیر ’’مکمل‘‘ ہوجائے گی) کرنے کے نتیجے میں سائنسی نظریات بدلنے پر کیا اس بات کا امکان نہیں کہ مذہب ہی غلط ثابت ہوجائے گا؟

٭ کیا جدید سائنس اسلام سے مفاہمت و مواقفت کیلئے اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے؟ کیا موافقت کےلئے بے چینی دکھانے سے پہلے خود سائنس ہی سے اس کا مقصد نہ پوچھ لیا جائے؟

جدید سائنس و ریاست

٭ کیا یہ جدید سائنس ہی نہیں جس نے انسانی زندگی کے ہر گوشہ کی نگرانی اور اس پر تحکم جدید ریاست کے لئے ممکن بناکر انسان کو غلام بنادیا ہے؟

٭ معاصر جدید ریاست جیسا ہمہ گیر تحکم کا تصور جدید سائنس سے قبل ممکن تھا؟کیا آج ریاست کی جغرافیائی حدود میں رہتے ہوئے ریاست کے دائرئہ اختیار سے باہر رہنا ممکن رہا ہے؟

٭ کیا معاصر سائنسی طرز زندگی میں تنگی وقت کے سبب انسان اپنی غلامی کی زندگی پر غور فکر کرنے اور اس سے نجات کی حکمت عملی وضع کرنے کے قابل رہا ہے؟

جدید سائنس اور تصور علم

٭ کیا جدید سائنس نے تمام مروجہ تصورات علم کو سائنسی منہج سے ہم آہنگ کرکے انہیں اپنے تصور علم سے ہم آہنگ نہیں کر دیا؟

٭ تاریخ انسانی میں اس سے قبل ایسا کب ہوا کہ ایک خاص علمیت نے اس قدر بڑے پیمانے پر مروجہ تصورات علم کو متاثر کیا؟
٭ ایسا کیوں ہے کہ سائنس کا منہاج کسی اور تصور علم کے ماتحت نہ رہ سکا؟

٭ کیا مختلف تصورات علم کے مناہج کی ہم آہنگی سے پیدا شدہ جعلی وقتی اور منتشر علم کسی تہذیبی ضرورت کو پورا کرنے کے قابل ہوتا ہے؟

٭ کیا جدید سائنس ماورائے مذہب کل انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے؟ اگر ہاں تو تاریخی طور پر عملاً ایسا کیوں ہوا کہ کسی بھی تہذیب کیلئے اس ورثے سے مستفید ہوکر تہذیبی سفر کو رواں رکھنے کے بجائے اس خاص تہذیب میں خود کو ضم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا؟

٭ کیا سائنس کے منہاج علم اختلافات اور تردیدیت کی تاریخ رکھنے کے باوجود اگر اس لئے قابل قبول ہیں کہ یہ workable ہیں تو اسی اصول کی بنیاد پر روایتی تہذیبوں کی تمام ضروریات کےلئے کفایت کرنے والے سابقہ تصورات علم اس خاص تصور علم سے کمتر کیوں ہیں؟ کیا وہ workable نہیں تھے؟

سائنس اور حتمیت

٭ کیا کسی علم پر اعتماد اس کے حتمی ہونے کے دعوے کے بغیر ممکن ہے؟

٭ کیا جدید سائنس کے معاصر اکابرین کسی حتمیت کا دعویٰ کرتے ہیں؟

٭ حتمیت کے دعوے سے دستبرداری کے بعدبہتری کےلئے سفر جاری رکھنےکے علاوہ کیا ممکن رہتا ہے،کسی ایسی محو سفر تہذیب سے ’’حقیقت کی تلاش‘‘ جیسا دعویٰ از خود منسوب کرنا خوش فہمی و حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟

٭ سائنسی تاریخ میں کیا جانے والا کوئی بھی دعویٰ کیا سمت میں ہمیشہ آگے کی جانب بڑھتا ہے (مثلاً طبی سائنس بہت سارے دعوؤں سے دستبردار ہونے کے بعد روایتی تہذیبوں میں مستعمل اشیاء کے استعمال کی افادیت کا دعویٰ کرتی ہے) یا پیچھے کی جانب بھی ہوتا ہے؟ کیا حتمیت کے بعد سمت بھی متعین نہیں؟

٭ کیا سائنس کے حتمیت کے دعوے سے دستبردار ہونے کے بعد کسی اتفاقی طور پر کئے گئے صحیح دعوے کی حیثیت اس کا محض سائنسی دعویٰ ہونے کی وجہ سے اپنی حتمیت نہیں کھو دیتی؟ یہ کیسا علم ہے جو حقیقت تو نہیں بتاتا بلکہ معلوم حقیقت کو بھی مشکوک بنا دیتا ہے؟

٭ کیا ایسی صورت میں ’’معلوم حقیقت کا مشکوک بننے‘‘ کا عمل ہر عامی کے لئے ہوتا ہے یا اس علم کے فلسفے کے ماہرین کےلئے، ظاہر ہے کہ ماہرین کیلئے، یہ کیسا علم ہے جس سے زیادہ سے زیادہ واقفیت زیادہ سے زیادہ تشکیک کے گڑھے میں گراتی ہے؟

٭ سائنسی دعوؤں کے سفر میں سمت کے عدم تعین کی بناء پر کسی مرحلے پر کئے گئے خاص دعوے کی خصوصیت میں اس کا سابقہ تجربات کی cumulative بہتری لئے ہوئے ہونا بھی ضروری نہیں، کیا یہ کسی ’’بہتری کےلئے جاری سفر‘‘ پر سوالیہ نشان نہیں؟

سائنس، بہتری کےلئے جاری سفر کا دعویٰ

٭ کیا سائنس کے ’’بہتری کےلئے جاری سفر‘‘ کے دعوے کا تجزیہ تہذیبی سطح پر مجموعی تناظر میں ہوگا یا محض چند ایجادات سے وقتی استفادے کی بنیاد پر؟

٭ کیا بہتری کیلئے جاری سفر کے تجزیے کا صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے اشیاء کی کمپارٹمنٹلائیزیشن کی جائے اور پھر بتایا جائے کہ کن اشیاء نے مجموعی بہتری میں کردار ادا کیا اور کن اشیاء نے نہیں؟کیا ہر دو طرح کی اشیاء نے تہذیبی تشکیل میں مجموعی کردار ادا نہیں کیا؟ کیا تہذیبی سطح کے سوال کا جواب یوں تلاش کیا جاتا ہے؟

٭ سائنس کا بہتری کا تصور ترقی میں مضمر ہے،جن تہذیبوں کو سائنس نے بدلا کیا ان کا بہتری کا تصور ترقی میں ہی مضمر تھا کہ سائنس بطور ٹول استعمال ہو کر ان میں بہتری لا سکتی؟ اگر نہیں تو جسے بہتری باور کیا جاتا رہا وہ تہذیبی تخریب کے علاوہ کیا تھی؟

٭ جب یہ طے ہے کہ سائنس جس بہتری کی موید ہے وہ تہذیبی ہے تو کسی خاص دور کو خیر القرون کہنے والے اس تبدیلی کو بطور بہتری کن بنیادوں پر قبول کرتے ہیں؟

سائنس اور غلامی

٭ غلامی کی مذہبی و جدید سرمایہ دارانہ شکل میں زیادہ خوفناک شکل کس کی ہے؟

٭ مذہبی معاشرے میں غلام معاشرے کا کتنے فیصد ہوتے ہیں؟سرمایہ دارانہ معاشرے میں کسی ایک بھی فرد کے لئے غلامی کے دائرے سے باہر زندگی گذارنا ممکن ہے؟

٭ جدید سرمایہ دارانہ معاشرے کے غلام محض سروائیول کے لئے جو کٹھن تگ ودو کرتے ہیں اس کے بعد احساسات کی سطح پر معیار زندگی کا بلند ہونا نہ ہونا ہم معنی ہوجاتا ہے (کہ محسوس کرنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے جو سرمایے میں اضافے کے علاوہ کسی کام میں صرف کرنے سے معیار زندگی کی ضمانت ممکن نہیں) یعنی جدید غلام جس شے پر یقین رکھتے ہیں سرمایہ داری وہ شے انہیں محسوس کرانے میں ناکام رہتی ہے، سرمایہ داری کے تین اہم فلسفے __
physicalism
naturalism
materialism
ایک عرصے سے محسوسات کے دائرے کے باہر کی دنیا کے اشیاء پر یقین کو جہالت باور کراتی رہی ہے لیکن عین اسی وقت میں جدید غلام سے یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ وہ محسوس کرنے کے قابل نہ رہنے والے معیار زندگی پر یقین بھی رکھے، جدید غلام اس کھلے تضاد پر تنقید کرنے سے کیوں قاصر ہے؟

٭ کیا غلامی کی سرمایہ دارانہ شکل سے نجات ہمہ گیر تہذیبی تبدیلی کے بغیر ممکن ہے؟ کیا مذہبی معاشرے کے غلام سے اپنی آزادی کےلئے اتنا بڑا تقاضا کیا جاتا تھا؟ یوں زیادہ قابل رحم کون ہے؟

سائنس اور خوف

٭ کیا جدید قومی ریاست کا سہما ہوا فرد جتنی طرح کے خوف کے اندر زندگی گزارنے پر مجبور ہے یہ بعینہ وہی زندگی ہے جس کا وعدہ اس سے جدیدیت نے کیا تھا؟

٭ ایسا کیوں ہے کہ زیادہ ماڈرنائز ریاست کا فرد زیادہ خوفزدہ ہے،کیا اس سے فرد کے خوف کی سطح سے ریاست کے جدید ہونے کا تعلق معلوم نہیں ہوتا؟

٭ انسان اپنی صلاحیت کے اعتبار سے خوف کی ایک خاص سطح سے زیادہ خوف کے اندر زندگی گزارنے کی جو قیمت ادا کررہا ہے، جدید ریاست اس قیمت کے ازالے کے لئے کوئی تشفی درماں یا خلاصی کی کسی صورت کو بطور اپنی ذمہ داری کیوں قبول نہیں کرتی؟ نیز اسی فرد پر ٹیکس لاگو کرنا اپنی ذمہ داری سے دہرا فرار نہیں؟

٭ کسی خدا کے خوف کے تحت زندگی گزارنے والے نارمل انسان پر درج ذیل خوف مسلط کرنا ایک انسان پر اضافی بوجھ نہیں؟

٭ ریاست کی عدم اطاعت کی صورت میں ملنے والی سزاوؤں کا خوف

٭ معیار زندگی میں اضافے میں ناکامی کی صورت میں معاشرے سے مسابقت میں پیچھے رہ جانے کا خوف

٭ وہ transition state کہ جس میں معاشرہ روایتی سے جدید کی طرف سفر میں کسی خاص مرحلے سے گزر رہا ہو کے دوران کسی ہوجانے والے گناہ کی صورت میں پبلکلی پردہ دری کا خوف

٭ مستقبل محفوظ نہ ہونے کا خوف

٭ سائنسی مشینوں میں گھرے انسان کا ان مشینوں کے malfunction کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کا خوف

٭ یہ خوف کہ مندرج بالا خوف کو خوف خدا پر ترجیح دی تو خدا ’’بھی‘‘ ناراض نہ ہوجائے

جدید سائنس اور اجنبیت

٭ ’’ہر لمحہ بدلتے رہنے‘‘ کی خصوصیت معاصر جدید دنیا کی ہے،کیا یہ کسی اور سابقہ تہذیبوں کی بھی خصوصیت رہی ہے؟ نتیجتاً کسی ٹھہراؤ اور سکون سے عاری حالت سے زندگی بھر گزرنے والے فرد کی اپنی ارد گرد کی دنیا سے حالت اجنبیت میں رہنے کے نتیجے میں در آنے والے نفسیاتی عوارض کا ذمہ دار کون ہے؟

٭ معاصر جدید انسان کےلئے ’’مستقل نوعیت کے تعلقات‘‘ جدید دنیا نے ایک خواب بناکر کیوں رکھ دئیے ہیں؟ رشتوں میں اعتماد کےلئے درکار تسلسل کے فقدان کے نتیجے میں تعلق بننے بگڑنے کے عمل سے گزرتا یہ انسان یہی سنتا آیا تھا کہ جدید انسان اس تہذیب کا پر اعتماد انسان ہے، کیا یہ paradox نہیں کہ جسے رشتوں میں عدم تسلسل کی بناء پر کسی شئے پر اعتماد نہیں، وہی انسان تاریخ کا پر اعتماد انسان کہلائے؟

٭ کیا روایتی خاندانی معاشرتی تعلقات کی کئی جہتیں نہیں ہوتیں؟ اس کے بالمقابل سرمایہ دارانہ تعلقات محض یک جہتی (seller and buyer) نہیں ہوتے؟ یہ کیسا جدید انسان ہے جو سابقہ انسان سے بہتر کہلوانے کے باوجودانسانی رشتوں اور تعلقات کی کئی جہتوں سے اجنبی ہے؟

جدید سائنس اور انتہاء پسندی

٭ جدید سائنس نے جو دنیا تخلیق کی ہے اس میں مذہبی انسان کےلئے اسپیس بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے اور اس مذہبی انسان پر ایک چلتا الزام یہ ہے کہ یہ انتہا پسند ہے لیکن جدید دنیا کے وکیل اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ کسی بھی زاویے سے یہ عہد انتہاء پر ہی تو کھڑا ہے، مثلاً کسی بھی اعدادو شمار جاری کرنے والے ذرائع سے معلوم کرنے پر درج ذیل حوالوں سے سائنس کی تخلیق کردہ معاصر جدید دنیا انتہاء پر کیوں نظر آتی ہے، مثلاً جیلوں کی تعداد، جرائم کی تعداد، پاگلوں کی تعداد، نفسیاتی مریضوں کی تعداد، حادثات کی تعداد، ولدیت سے لاعلم لوگوں کی تعداد، محض سروائیول کےلئے متعدد ملازمتیں کرنے پر مجبور لوگوں کی تعداد،جنسی تشدد سہنے پر مجبور لوگوں کی تعداد،جنسی و جسمانی مریضوں کی تعداد، جنگوں میں مخالفین کے قتال کی تعداد، پورن انڈسٹری میں کھپنے پر مجبور لوگوں کی تعداد اور اس نوع کے کئی دیگر اعداد و شمار دیکھ لیں جو خود مغرب کےلئے غیر مطلوب ہیں لیکن اس میں انتہا پر مغرب ہی نظر آتا ہے، یوں انتہا پسندی کے طعنے کا اصل مصداق مغرب ہے یا روایتی معاشرے؟

٭ مذہبی انسان کی انتہاء پسندی کی ممکنہ حد اس کے علوم میں درج ہے،کیا مغرب نے مندرج بالا اعمال میں کس انتہاء تک جانا ہے اس کی کوئی حد بندی کی ہے؟چ

٭ کیا سائنسی ترقی اور درج بالا افعال میں direct relation نہیں ہے، نتیجتاً ترقی ideal ہونے کی وجہ سے اس کے outcome (سوال ایک میں درج افعال) قبول کرنے کے علاوہ کیا چارہ ہے؟ اگر ترقی بے انتہاء کرنی ہے تو اس کے بے انتہاء outcome سے بچنے کا کوئی مکینزم مغرب کیوں پیش نہ کر سکا، یوں اصل انتہاء پسند کون ہے؟