ترقی کفار سے قرضے اور سود کے بغیر نہیں ہوسکتی اور سود اسلام میں حرام ہے، سودی قرضے پر مسلمانوں کو ترقی دلوانا کس شریعت کا حکم ہے؟ کیا ترقی اسلامی عقیدہ ہے؟ اور جب یہ اسلام کا سرے سے عقیدہ ہی نہیں تو ترقی کی غیر علمی اور غیر عقلی وکالت کس لئے؟ ترقی کا عقیدہ دنیا کی کسی تہذیب میں نہیں تھا، ترقی نہ ہی اسلامی ہوتی ہے نہ ہندو ہوتی ہے نہ یہودی ہوتی ہے بلکہ ترقی سودی ہوتی ہے، سود کس شریعت میں حلال ہے؟ کوئی یہ نہیں پوچھ رہے ہیں، ترقی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا میں کسی شخص کو صاف ہوا، صاف پانی اور زہر سے پاک غذا میسر نہیں ہے، زمین سے لے کر آسمان تک، پانی سے لے کر ہوا تک ہر چیز زہریلی ہوچکی ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں Sleeping Parlour اور Fresh Parlour کھلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ترقی کے عقیدے نے اس دنیا کو جنت بنانے کے چکر میں جہنم بنا دیا ہے __
عوام سے لے کر علمائے کرام تک سب کی زبان پر یہ بات ہے کہ عوام کا معیار زندگی بلند کیا جائے، سوال یہ ہے کہ معیار زندگی کا عقیدہ کہاں سے آیا ہے اور کون لے کر آیا ہے؟ معیار زندگی کی کیا تعریف ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ مغرب کے معیار زندگی کو حاصل کرنا آسان ہے یا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار زندگی کو حاصل کرنا آسان ہے؟ مغرب کا معیار زندگی عوام میں کوئی حاصل نہیں کرسکتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معیار زندگی غریب تو کیا امیر بھی حاصل کرسکتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار زندگی سے کسی کو محبت نہیں ہے، اس کے برعکس اس معیار زندگی سے محبت ہے جس کا حصول ہی ناممکن ہے، پاکستانی ریاست میں لوگوں سے دودھ، روٹی، گوشت، سبزی اور پھل تک ایکسپورٹ کے نام پر چھین لئے گئے، پچاس فیصد تک آبادی دودھ تک نہیں پی سکتی، اس لیے کہ دودھ ایکسپورٹ ہوتا ہے، زرعی اجناس کی چیزوں کی ایکسپورٹ سے لوگوں کو ٹی وی، فریج اور موبائل پکڑا کر معیار زندگی بلند کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، لوگ دودھ کا ایک گلاس خرید نہیں سکتے لیکن موبائل فون پر گائے بھینس سے نکلتا ہوا دودھ گلاسوں میں ڈالتا دیکھ سکتے ہیں، پاکستانی ریاست کے حامی تمام ماہرین معاشیات اس معیار زندگی کو عوام پر مسلط کر رہے ہیں، کوئی ماہر معاشیات یہ کہنے کےلئے تیار نہیں کہ لوگوں کے ہاتھوں میں دودھ کا گلاس، پھل اور سبزیاں دے دو اور ان کے ہاتھ سے موبائل فون چھین کر پھینک دو، س کا نام ہے جدید معیار زندگی __