فلسفہ مغرب اور اس کے مطالعہ کا صحیح منہاج
سید خالد جامعی
فلسفہ مغرب، فلسفہ یونان اور مغرب کو سمجھنے کیلئے انگریزی، فرانسیسی، جرمن زبانوں پر عبور لازمی نہیں، امام غزالیؒ اور امام ابن تیمیہؒ نے یونان جا کر فلسفے کا مطالعہ نہیں کیا تھا اور نہ انہوں نے کسی فلسفی سے فلسفے کا علم حاصل کیا تھا، آج عالم اسلام کو امام غزالیؒ کی ضرورت ہے جو دوبارہ تہافت الفلاسفہ علماء کی خدمت میں پیش کرے، متقدمین نے فلسفے کا علم حاصل کرنے کا سبب الزاما قرار دیا، جو لوگ فلسفہ پڑھتے تھے وہ کسی نہ کسی روحانی سلسلے میں بیعت ہوتے تھے، اس تعلق کے بغیر فلسفے کا علم بڑے بڑے ایمان والوں کو شک و شبہ میں ڈال سکتا ہے اور ڈال چکا ہے اور آج بھی بہت سے لوگوں کا ایمان متزلزل کر چکا ہے، اسلامی تاریخ میں علماء کو فلسفے کے متون (Text) نہیں پڑھائے گئے تھے بلکہ فلسفے کا خلاصہ (Summary) کر کے اس پر علماء کا نقد (Critique) پڑھایا گیا _
جدید مغرب کو سمجھنے کیلئے نہ انگریزی جاننا ضروری ہے، نہ ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈن ازم کو پڑھنا ضروری ہے، ماڈن ازم، کیپٹل ازم، لبرل ازم جس طرح سے اپنے آثار، مظاہر، برگ و بار، ہمارے سامنے لا رہے ہیں صرف ان کو دیکھ کر Actualized Modernity کو جانچنا، پر کھنا بہت آسان ہے، ماڈرن ازم جس شکل میں ہمارے سامنے آ رہا ہے، ہماری تہذیب، اقدار، روایات، معاملات اور تعلقات پر اس کے جو منفی اثرات ہوئے ہیں وہ سب ہمارے سامنے ہیں، اس کو سمجھنے کےلئے اس کو پڑھنے کی ضرورت نہیں، عقل سلیم اور قلب منیب سے کام لینے کی ضرورت ہے _
اکبر الہ آبادی مرحوم کا انتقال ۱۹۲۱ء میں ہوا، ایک سو سال پہلے اکبر الہ آبادی پوسٹ مارڈن ازم کی پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے، انہوں نے فلسفہ نہیں پڑھا نہ کبھی ہندوستان سے باہر گئے لیکن اکبر الہ آبادی نے ماڈرن ازم کے مظاہر کو دیکھ اس پر جو عملی تنقید (Practical Critique) یا دوسرے لفظوں میں Common sence critique کی، اسے دیکھ کر علماء اور دینی جماعتیں مغرب کو بخوبی سمجھ سکتی ہیں اور اس کی بنیاد پر ”تنقید مغرب“ کا کام بھی انجام دے سکتی ہیں _
جمال الدین افغانی پہلے مفکر ہیں جنہوں نے اپنے خطبات میں انبیاء اور فلاسفہ کا فرق بیان کرتے ہوئے نہایت گمراہ کن الفاظ لکھے، وہ لکھتے ہیں کہ ”انبیاء (علیہم السلام) کا علم غلطی سے مبرّا ہوتا ہے کیونکہ علم کا ذریعہ وحی الہی ہے لہذا ان کا علم غلطیوں سے ماورا ہے، فلسفے میں غلطی کا امکان رہتا ہے لیکن فلسفی اور نبی میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ نبی کسی خاص بستی، کسی خاص قوم، خاص زمانے تک محدود ہوتے ہیں یعنی انبیاء (علیہم السلام) Particular ہوتے ہیں، اس لئے زمانہ بدلنے سے شریعت بدل جاتی ہے جبکہ فلسفی کا فلسفہ آفاقی ہوتا ہے، مقامی، علاقائی اور عارضی نہیں ہوتا“ فلسفے کے علم کو آفاقی کہنا بدعت، جہالت اور ضلالت کے سوا کچھ نہیں، یہ تو جدیدیت (Modernism) کا دعوی تھا کہ عقلیت اور جدید فلسفے کی بنیاد پر آفاقی دعوے کئے جاسکتے ہیں لیکن جدیدیت (Modernism) پر پس جدیدیت (Post Modernism) کی تنقید نے تو یہ بات دو اور دو چار کی طرح واضح کر دی ہے کہ عقلیت کی بنیاد پر آفاقی دعوے کرنا ممکن ہی نہیں لہذا ماڈرن ازم خود ہی Particular ہے، وہ آفاقی عقلیت کا دعوی نہیں کر سکتا، نہ اس کی اقدار آفاقی ہیں نہ اس کا علم آفاقی ہے، سب کے سب Particular ہیں اور Subjective ہیں، صرف نقلی علم ہی آفاقی علم ہے کیونکہ خالق کل کائنات کا خالق ہے _
ہمارے ایک اسلامی فلسفی دوست کے پاس ایک عالم دین ”علم فلسفہ“ کی تحصیل کےلئے تشریف لے گئے تو عالم دین نے ان سے سوال کیا کہ علماء کہتے ہیں کہ فلسفہ پڑھنے سے ایمان کمزور ہو جاتا تو مجھے فلسفہ پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ انہوں نے جواباً یہ کہا کہ ”اگر آپ کا ایمان اتنا کمزور ہے کہ فلسفہ پڑھنے سے متاثر ہو جائے تو اپنے ایمان کی اصلاح کیجئے! فلسفے کی اصلاح نہ فرمائیے“ عالم دین نے ہم سے رجوع کیا کہ کیا فلسفی صاحب کا یہ استدلال درست ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ ان کا جواب درست نہیں ہے، یہ اس طرح کا استدلال ہے جو لبرل حلقے اور جاوید غامدی صاحب عریانی اور فحاشی کے مناظر کے بارے میں پیش کرتے ہیں کہ ”آپ کسی گندی، غلیظ اور عریاں جگہ سے گزر رہے ہیں تو نظریں نیچی رکھ کر گزر جائیے! آپ کو اپنے ایمان پر یقین ہونا چاہیے، آپ ایسی چیزوں کو بالکل نہ دیکھیں، غض بصر سے کام لیں“ لبرل اور متجددین کو دو سوالوں سے غرض نہیں _
پہلا سوال یہ ہے کہ ہم ایسی گندی جگہوں پر کیوں جائیں اور آزمائش میں خود کو کیوں مبتلا کریں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ معاشرے میں ایسی گندی جگہیں کیوں موجود ہیں؟ کیا ان کو ختم نہیں کیا جاسکتا؟ اگر ختم نہیں کیا جا سکتا تو کیا ان کو ختم کرنے کا ارادہ بھی نہیں کیا جاسکتا؟
لبرل اور متجد دین جان بوجھ کر ان دونوں سوالوں سے صرف نظر کرتے ہیں کیونکہ یہ سوال ان کے استدلال کی بنیاد منہدم کر دیتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ آپ ان چیزوں، مناظر کو برداشت کریں، گناہ، غلاظت، ضلالت اور خباثت کو قبول کرنے کا مادہ پیدا کریں یعنی Tolerance اختیار کریں، غلاظت کے باوجود خود ذاتی سطح پر پاک باز رہنا چاہتے ہیں تو پاک باز بن کر رہیں، لبرل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زنا کاری ہو رہی ہے تو ہونے دو اگر تمہارا عقیدہ اسے پسند نہیں کرتا تو اپنی آنکھیں حیاء داری سے نیچے رکھو، وہاں نہی عن المنکر سے باز رہو، دنیا بھر کے ٹھیکہ دار نہ بنو اور سلامتی سے گزر جاؤ _
اکبر الہ آبادی نے مغربی فلسفہ پڑھے بغیر مغرب پر جو تنقید کی وہ نہایت عالی شان ہے، علامہ اقبال مرحوم اپنے خطوط میں اکبر کو پیر و مرشد کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، جس شخص کو علامہ اقبال اپنا پیر و مرشد لکھیں اس کا مقام کتنا بلند ہوگا! شیخ عطاء اللہ نے اقبال نامہ میں اکبر کے نام اقبال کے خطوط جمع کر دیے ہیں، حیرت ہے کہ اکبر کو ایک مزاحیہ شاعر سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا، اقبال کی قدر کرنے والوں نے اقبال کے پیر و مرشد کی قدر نہیں کی، اکبر الہ آبادی کی تنقید عقل عامہ کی سادہ مگر پر اثر تنقید ہے، اکبر نے تنقید اس وقت کی جب ماڈرن ازم اپنی منحوس شکل میں سامنے نہیں آیا تھا، اب تو ماڈرن ازم پر تنقید بہت آسان کام ہے، حیرت ہے کہ ہم اکبر الہ آبادی جیسی تنقید تخلیق کرنے سے قاصر ہیں، ہمارا یہ بانجھ پن مغرب کی فکری، عملی، تہذیبی غلامی کا نتیجہ ہے، غلامی کی یہ رات کب ختم ہوگئی؟ معلوم نہیں، جسمانی غلام موت آتے ہی آزاد ہو جاتا ہے لیکن ذہنی غلام مرنے کے بعد بھی غلام ہی رہتا ہے کیونکہ وہ غلامی کو ذہنی طور پر قبول کر چکا ہوتا ہے _
اگر مغربی فلسفے کا علم مغربی زبانوں کی تحصیل سے مشروط کر دیا جائے تو سوال یہ ہے کہ ایران کے علماء (جو جرمن اور فرانسیسی زبانیں جانتے ہیں) مغرب کا نقد کیوں نہیں پیش کر سکے؟ سید حسین نصر نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ”میں دو ایرانی علماء کو جانتا ہوں جو دونوں زبانوں پر عبور رکھتے ہیں“ حیرت کی بات ہے کہ ایران ماڈرن ازم (Modernism) کےلئے کوئی خطرہ نہیں وہ اسے قبول کر چکا ہے، سید حسین نصر کا بیٹا ولی رضا نصر (جو صدر اوبامہ کا مشیر تھا) اپنی کتاب Shia میں مغرب کو یہی سمجھا رہا ہے کہ ایران تو ماڈرن ازم کو قبول کر چکا سنی دنیا نے ابھی تک ماڈرن ازم کو قبول نہیں کیا، تم ایران سے دشمنی کیوں کر رہے ہو وہ تو تمہارا حلیف بن سکتا ہے لیکن ایرانی انقلاب اور اس کے مظاہر مغرب کےلئے قابل قبول نہیں کیونکہ وہ خوف زدہ ہے کہ ایرانی جدیدیت میں سے شیعہ راسخ العقیدگی نہ نکل آئے، مغربی فلسفہ سے واقف ایرانی علماء نے کیسے جدید اجتہادات کئے؟ شیریں عبادی کی کتاب The Voices of Islam پڑھ لیں _
امید کی پہلی اور آخری کرن ہمارے دینی مدارس ہیں، الحمد للہ ان مدارس میں مغرب پر کام ہو رہا ہے، ان شاء اللہ ضرب کلیمی یہیں سے برآمد ہوگی، اقبال نے درست کہا تھا ….. عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد
دینی مدارس میں عصاء بھی ہے، علم بھی ہے اور ایمان بھی، ہمارے اسلاف متقدمین یونانی فلسفے کا جواب ہی نہیں دیتے تھے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا طریق کار ہمارے سامنے ہے، متاخرین نے کسی ضرورت کے تحت فلسفے کے تناظر میں جواب دیا تو کہا کہ ہم اصولاً نہیں الزاما جواب دیں گے، فلسفی کا جواب اس کے علم سے دیں گے، یہ ایک مجبوری ہے کیونکہ فلسفی عقلیت پرست ہوتا ہے لہذا اسی کے منہاج علمی سے اس کی عقلی دلیل رد کریں گے، یہ صرف دین کے تحفظ کےلئے ایک دفاعی عمل ہے جسے متکلمین انجام دیتے ہیں، وہ اسلامی سرحدوں کے سپاہی ہیں، فلسفے کے ذریعے وہ فلسفے کو اس کے اصول سے رد کر دیتے ہیں، شیخ ابن عربیؒ نے امام رازیؒ کا محاکمہ کرتے ہوئے یہی لکھا تھا کہ آپ نے عقلی اعتراضات نقل کر دیے جس کے باعث عقلیات کا غلبہ ہوگیا، فلسفے کے علم کو فلسفے سے رد کرنے کےلئے کچھ لوگ فلسفے کا علم حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس علم کا حصول فرض نہیں ہے، اسلامی تاریخ میں مدارس کی سطح پر فلسفے کے اصل متون نہیں پڑھائے گئے بلکہ فلسفے کا خلاصہ بیان کر کے اس کا رد اسلامی علمیت کے دائرے میں بیان کر دیا گیا لہذا فلسفہ پڑھتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ فلسفہ پڑھنے کی حدود (Limits) کیا ہیں؟ اس اصول کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ دین فضول اور لغو معاملات میں بحث و مباحثے سے منع کرتا ہے، فلسفہ پڑھنے کی آفات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا جس کے نتیجے میں عموماً مزاج عقلی دلائل کا اسیر ہو جاتا ہے اور دین کے ہر اصول کی عقلی توجیہ کرنا مزاج بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں آخر کار خود اپنے دین پر شکوک و شبہات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، فلسفہ پڑھنے سے پہلے کسی سلسلے میں بیعت ضروری ہے تا کہ کسی صاحب حال بزرگ سے رابطہ قائم رہے اور فلسفے کے مضر اثرات کا روحانیت سے مقابلہ کیا جا سکے، امام غزالیؒ اور علامہ شیخ ابن تیمیہؒ دونوں صوفی بزرگ تھے، جدید تحقیق کے مطابق شیخ ابن تیمیہؒ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے سلسلے میں بیعت تھے اور شیخ کا خرقہ بھی ان کے پاس تبرک کے طور پر موجود تھا، ان کا انتقال ہوا تو انہیں گورستان صوفیاء میں سپرد خاک کیا گیا _
خلق قرآن کے مسئلے میں وقت کے خلیفہ نے معتزلہ جیسے فلسفیوں سے مناظرہ کرنے کےلئے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو دعوت دی تو آپ نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ قرآن وسنت نے قرآن کے بارے میں جو بتا دیا وہ حرف آخر ہے، ہمیں اس مسئلے پر کسی سے بحث و مباحثے کی ضرورت نہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہہ دیا وہ ہمارے لئے کافی ہے لہذا امام صاحب کوڑے کھاتے ہوئے بھی یہی صدا لگاتے تھے کہ لوگو! سن لو قرآن مخلوق نہیں ہے، ایک عباسی خلیفہ کے مسخرے نے خلق قرآن کے عقیدے پر اپنے ایک جملے سے کاری ضرب لگائی، وہ جھوٹ موٹ زور زور سے رونے لگا، خلیفہ نے پوچھا کیوں رور ہے ہو، تمہیں کس بات کا دکھ ہے؟ روتے ہوئے پوچھنے لگا کیا واقعی قرآن مخلوق ہے؟ خلیفہ نے کہا اس میں کیا شک ہے، روتے ہوئے مسخرے نے جواب دیا میں اس بات پر رورہا ہوں کہ اگلے سال تراویح میں کیا پڑھا جائے گا کیونکہ مخلوق کا تو کسی وقت بھی انتقال ہو سکتا ہے، خلیفہ اپنے عقیدے سے تائب ہوگیا اور اس نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو رہا کر دیا، ان کی تعظیم و تکریم کےلئے خلیفہ نے مال و دولت اور سونے کی اینٹیں بھیجیں، حضرت امام نے سب تحفے واپس کر دیئے، فرمایا میرے لئے سونے کے توڑے سے وہ کوڑے اچھے تھے جو میری پیٹھ پر برسائے گئے، امام صاحب کے عہد کے چور بھی ایمانی غیرت رکھتے تھے، امام صاحب ایک راہ سے گزرے جہاں کیچڑ تھا، امام صاحب نے ایک نوجوان کو دیکھا جو کیچڑ کی طرف جا رہا تھا (یہ اپنے زمانے کا چور تھا) امام صاحب نے مشورہ دیا اے نوجوان! کیچڑ ہے احتیاط سے بچ کر چلنا کہیں تمہارا پیر پھسل نہ جائے، چور نے فوراً جواب دیا امام صاحب! میری فکر نہ کیجئے اگر میں پھسلا تو تنہاء میں پھسلوں گا اگر آپ پھسلے تو اس امت کا کیا ہوگا؟ امام صاحب نے اس جواب پر اللہ کا شکر ادا کیا اور اس شخص کو دعائیں دیں، یہ تھے ہمارے اسلاف _
قتاوی کے مختلف مجموعوں میں یہ فتویٰ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے ترکے کی کتابیں فی سبیل اللہ وقف کرے تو ان کتابوں میں فلسفے کی کتابیں شامل نہ کی جائیں، انہیں الگ کر دیا جائے گا، یہ فتویٰ بھی ملتاہے کہ ترکے کی کتابوں کی تقسیم کے وقت ترکے میں فلسفے کی کتابوں کا شمار نہیں ہوگا، حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کا طریقہ یہ تھا کہ جب فلسفے کے اسباق پڑھاتے تو مسجد میں اس کا درس نہ دیتے، دینی علوم کی کتابوں کے ساتھ حضرت فلسفے کی کتابوں کو نہیں رکھتے تھے، اس احتیاط کا سبب وہ نحوست ہے جو علم فلسفہ کا خاصہ ہے، جس شخص نے بھی فلسفے کے فن کو عزت دی اسے بہت اہمیت دی، عقلی دلائل پر اپنے فہم کی بنیاد رکھی، فلسفیانہ موشگافیوں کو علمیت کا سر چشمہ سمجھا، وہ فتنے میں مبتلاء ہوا اور دین سے بیزاری اس کی طبیعت کا حصہ بنی، ہم ماضی کی بات نہیں کرتے عصر حاضر میں ہم مختلف مکاتب فکر کے ایسے علماء کو جانتے ہیں جنہوں نے مغربی فلسفے کے متون میں اپنی عمر کا ایک حصہ بسر کیا اور چند مہینوں میں ہی شریعت کے احکامات، عبادات، ذکر و اذکار ان کے فلسفیانہ غور و فکر میں مانع ہونے لگے، انہوں نے فلسفے کو نہیں چھوڑا، دین پر مفاہمت کر لی، دینی اعمال فلسفے کے معیار پر پورے نہیں اترے (نعوذ باللہ) وہ علماء بھی ہم نے دیکھے جو شعبہ فلسفہ میں فلسفہ پڑھنے کےلئے آئے لیکن فلسفے میں اعلیٰ سند لینے کے بعد ان کی دینی حمیت و غیرت خود بہ خود تحلیل ہوتی چلی گئی، ان کی عادات، اطوار، مزاج ، رویہ، اسلوب، اقدار، روایات سب کچھ غتر بود ہو گئے _
اسلامک ماڈرنسٹوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ برنارڈ لیوس جیسا مستشرق بھی اسلامی شخصیت اور اسلامی انفرادیت کو کتنی گہرائی سے جانتا ہے، وہ جانتا ہے کہ قرآن و سنت، اجماع اور قیاس جس انسان کی تخلیق کرتے ہیں وہ انسان ایمان کے کمزور سے کمزور درجے میں بھی نہی عن المنکر کے فریضے سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا، وہ لکھتا ہے کہ ”مسلمان یورپ میں آزادی کے مغربی عقیدے اور ہیومن رائٹس (Human Rights) کو استعمال کر کے اپنی علمیت کو محفوظ کرتے ہیں، حقوق کے نام پر وہ اسلام کا تحفظ کرتے ہیں لیکن اسلامی علمیت لا محدود آزادی (Freedom) کو کسی سطح پر قبول نہیں کر سکتی کیونکہ مسلمان امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا عقیدہ رکھتا ہے اور نہی عن المنکر کا عقیدہ دوسرے کی Freedom پر حملہ کرتا ہے لہذا اسلام کبھی Tolerant نہیں ہوسکتا، برائی پر خاموش نہ رہنا اسلامی عقیدے کا تقاضا ہے“ _
علمائے کرام کو جدید مغربی فلسفے کے مباحث انہی اصولوں کے تحت پڑھنے چاہئیں اور اسی طریقے سے پڑھنے چاہئیں جس طرح ہمارے اسلاف نے اسے پڑھا ہے، خبر سے پہلے نظر کی ضرورت ہے لہذا فلسفے کی تعلیم سے پہلے اپنی اخلاقی، ایمانی اور روحانی حالت کو کسی نیک ہستی سے وابستہ کر کے بہترین کرنے کی ضرورت ہے تا کہ فلسفے کے پیدا کردہ وساوس، گمراہیوں اور عقلی استدلالات سے متاثر ہونے کی حس کمزور تر ہو جائے، فلسفہ پڑھتے ہوئے فلسفے کو عقیدت اور حقیقت کے درجے پر نہ رکھا جائے بلکہ اسے حقارت سے دیکھا جائے اور حقیر سمجھا جائے اور اس کا مقصد صرف الزاما جواب دینا ہو، وہ علماء جو مغربی فلسفہ نہیں پڑھنا چاہتے وہ فلسفے کی ضلالت اور گمراہی نقل کے منہاج میں واضح کر سکتے ہیں، اس کےلئے لازم ہے کہ وہ فلسفے کوحقیر علم بلکہ تمام علوم عقلیہ کی تلچھٹ سمجھیں جس طرح یونانی فلاسفہ سائنس کو اور تجربی علوم کو علوم فلسفہ کی تلچھٹ شمار کرتے تھے، اسلامی علمیت (جو الہامی اور نبوی علمیت ہے) اس قدر مستحکم و منظم ہے کہ صرف ایمانی عقل کے ساتھ فلسفہ پڑھے بغیر فلسفے کے تمام عقلی دلائل کو صرف عقل نورانی سے ہی رد کیا جا سکتا ہے، اس کےلئے نفس مطمئنہ کا حصول لازمی ہے _
فلسفے کی کتابوں کو میراث میں شامل نہیں کیا گیا کہ یہ علم نہیں ہے، ملا علی قاریؒ نے فلسفے کی کتابوں کے اوراق سے استنجاء کو جائز قرار دیا ہے (اگرچہ اس پر علماء نے کلام کیا ہے) فلسفے کو اس قدر حقیر سمجھ کر جب فلسفہ پڑھا جاتا ہے تو فلسفے کی تمام آفات، مصیبتوں کا ازالہ اور امالہ ہو جاتا ہے، فلسفہ کی اس بحث میں ہم علم کلام پر بھی گفتگو کریں گے کیونکہ بہت سے لوگ علم کلام کو فلسفہ سمجھتے ہیں یا بعض اسے اسلامی فلسفہ سمجھتے ہیں، بعض نے تو دین کی اصطلاح حکمت کو بھی فلسفہ کہا ہے اور بعض فلسفے سے متاثر مسلم مفکرین اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے خدائے برتر کو سب سے بڑا فلسفی قرار دیا حالانکہ مفسرین نے لکھا ہے کہ سب سے بڑا اور پہلا فلسفی شیطان ہے، فلسفے اور علم کلام میں بنیادی نوعیت کا فرق ہے _
فلسفہ عقل محض سے آزادانہ غور و فکر کا طریقہ ہے، فلسفی اپنے کسی نتیجے کوحتمی نہیں کہے گا نہ اپنی کسی تحقیق کو کامل قرار دے گا، اسی لئے ہر فلسفی کے فلسفے کے دو ادوار ہوتے ہیں، ابتدائی زمانہ یا Early Age اور بعد کا زمانہ Later Age کہ فلسفی کا علم ارتقاء پذیر رہتا ہے، فلسفی، ارسطو کے الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ میں اس طرف چلا جاؤں گا جدھر دلیل مجھے لے جائے گی لہذا دلیل بدلتی رہتی ہے اور فلسفی کا فلسفہ بھی بدلتا رہتا ہے، فلسفے کے راستے میں کوئی منزل نہیں ہوتی، صرف پڑاؤ ہوتے ہیں، فلسفے اور علم کلام میں بنیادی نوعیت کا فرق اس مثال سے واضح ہو جاتا ہے _
علم کلام آزادانہ عقلی سرگرمی نہیں وہ مغرب کی عقلیت پرستی کی طرح کی کوئی کوشش نہیں، اسلام میں عقل کا تصور ہی مختلف ہے، مغرب کی عقلیت پسندی سے اس کا کوئی تعلق نہیں، ان معنوں میں معتزلہ کی عقلیت پسندی جدید مغرب کی عقلیت پسندی سے بالکل مختلف ہے، معتزلہ توحید و رسالت کے منکر نہیں تھے، جدید عقلیت تو مابعد الطبیعات کو علم ہی تسلیم نہیں کرتی، متکلم کے کلام سے عقیدہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اس کا کلام لازماً مذہب نہیں ہوتا، وہ اسلام کا سپاہی ہوتا ہے اور اسلامی علمیت و تہذیب کا دفاع کرتا ہے، اس کے پیش کردہ الزامی اور اقدامی دلائل سے عقیدے کے باب میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی، علامہ عضد الدین ایجیؒ نے مواقف میں لکھا ہے کہ علم کلام و علم ہے جو عقائد دینی کو مستحکم طور پر ثابت کرنے کیلئے دلائل دینے اور شبہات کا ازالہ کرنے کی ذمے داری قبول کرتا ہے، شرعی نقطہ نظر سے اہل فقہ و فتویٰ نے علم کلام کی تعریف بدعت واجبہ کی اصطلاح سے کی ہے (ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی (۶۷۶ھ) تہذیب الاسماء واللغات ج ۰۱ ص ۲۲، ۲۳ دار الکتب العلمیہ، بیروت) ابو نصر فارابی کے مطابق علم کلام وہ علم ہے جوکسی بھی مذہبی روایت میں تاریخ کے اس مرحلے پر نمودار ہوتا ہے جب اس مذہب پر ہونے والے مختلف حملے اس بات کی ضرورت پیدا کر دیتے ہیں کہ عقائد دینی کے دفاع کا ایک منظم طریقہ اختیار کیا جائے _
عموماً علم کلام کو اسلامی فلسفہ سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ تصور درست نہیں کیونکہ فلسفہ خالص عقلی سرگرمی ہے جو عقل محض (Pure Reason) کی رہبری میں انجام دی جاتی ہے، اس کے برعکس معین دائرے میں مقید نقل اور بظاہر غیر معین متغیر اضافی لیکن فی الاصل متعین عقل یعنی عقل سلیم کے ماہین تطبیق کا عمل فلسفہ کلام کہا جاتا ہے لہذا علم کلام دین کے متعین دائرے میں مقید ایک دینی عقلی، ایمانی اور روحانی سرگرمی ہے، علم کلام آزادنہ منطقی موشگافی، خیال آرائی اور محض عقلی سرگرمی کا نام نہیں بلکہ متعین، مقید، محدود، مسدود اور ہدایت یافتہ ایمانی، روحانی عقلیت کا نام ہے، حدیث ہے کہ عقل کا مقام قلب ہے لہٰذا عقل سلیم در اصل قلب منیب سے ہی برآمد ہوتی ہے، شریعت کے مقاصد و اہداف میں تبدیلی کے بغیر بدلے ہوئے حالات میں دلیل کے انداز اور الفاظ کو بدلنا یا بدلتے ہوئے حالات میں دلیل کی ترکیب و ترتیب کو بدلنا یا دلیل کو بدل دینا علم کلام کی ایک اہم ذمہ داری ہے، دوسرے لفظوں میں کلامی اور اجتہادی سرگرمی کا مطلب مقاصد شریعت میں تحریف و تغیر، ترمیم و اضافہ کر کے اس کی روح کو تغیر پذیر کرنا نہیں، علم الکلام مذہب اور اس کے متعین کردہ اہداف و مقاصد کو مشکوک بنانے والے دلائل کا عقل سلیم، قلب منیب اور حکمت خالدہ کے ذریعے ایسا رد ہے جس کے نتیجے میں ہر عہد میں قرآن وسنت کی کامل پیروی اورتقلید کوممکن بنایا جا سکے _
یہاں ایک اہم بات یاد رکھی جائے کہ عقلیت پسند معتزلہ کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے جدیدیت پسند (Modernist) تھے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے، جدیدیت پسند (Modernist) انسانی خود مختاری (Human Autonomy) اور آزادی (Freedom) کے عقیدوں پر یقین رکھتے ہیں جبکہ معتزلہ توحید و رسالت پر کامل یقین رکھتے تھے، وہ توحید اور رسالت کا انکار نہیں کرتے تھے، نہ اسے حقیر و کم تر سمجھتے تھے، جدیدیت (Modernism) کی علمیت میں توحید و رسالت وجود ہی نہیں رکھتے، کانٹ لکھتا ہے کہ مابعد الطبیعات کا علم ممکن نہیں، اصل علم تجربیت اور عقلیت سے ملتا ہے جو سائنس ہے، روشن خیال انسان وہ ہے جو وحی، عالم اور ڈاکٹر سے ہدایت نہ لے خود آزادانہ فیصلے کرے _
اسی طرح کی ایک غلط فہمی مغل بادشاہ اکبر کے بارے میں ہے کہ وہ سیکولر تھا اور دین و دنیا میں تفریق کر رہا تھا، وہ سیکولر نہیں زندیق تھا، اس نے علماء سے جبراً ایک فتویٰ پر دستخط کرائے کہ اکبر مجتہد اعظم ہے اور وہ دین کی جو چاہے تعبیر خود پیش کر سکتا ہے، وہ توحید ورسالت کے عقیدوں کا تو منکر نہیں تھا لیکن دین کی آزادانہ تعبیر وتشریح اپنے نفس کی خواہشات کے تابع کرنا چاہتا تھا لہذا اس کے زندقہ کو سیکولر ازم نہیں کہا جا سکتا، زندقہ کا مطلب ہے دین کی من مانی تشریح، تفسیر اور توجیہ _
علم کلام کسی معاشرے میں صرف دفاع دین کےلئے استعمال کیا جاتا ہے اسے معمولات زندگی بنا لینا دین کو مطلوب نہیں ہے، اس لئے ہماری تاریخ کے دو بڑے متکلمین امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام غزالیؒ علم کلام کے بارے میں متنبہ کرتے ہیں _
امام اعظم ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں ”میں علم کلام کو افضل ترین علم سمجھتا اور کہا کرتا تھا کہ یہی دین کی بنیاد کی نگہبانی ہے لیکن جب میں نے خود پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ صحابہ تابعین نہ صرف یہ کہ ان امور سے بے بہرہ نہ تھے بلکہ ہم سے زیادہ ان کے علم میں گہرائی تھی، اس موقف پر پہنچنے کے بعد میں نے علم کلام کو خیر باد کہ دیا، صرف فنی معرفت باقی تھی اور زندگی میں بطور علم سلف کے علوم کو اپنا لیا“ (المناقب الموافق ج ۱ ص: ۶۱/۶۰) _
حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں ”صوفیائے کرام اللہ کے راستے کے سالک ہیں اگر عقلاء کی عقل حکماء کی حکمت اور شریعت کے رمز شناسوں کا علم مل کر بھی ان کی سیرت و اخلاق سے بہتر لانا چاہے تو ممکن نہیں، ان کا علم وعمل مشکوۃ نبوت سے ماخوذ ہے اور نور نبوت سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جاسکے“ (المنقذ من الضلال: ص ۱۷۸/۱۷۷) _
آج کل یو نیورسٹیوں میں جو فلسفہ پڑھایا جا رہا ہے وہ جدید ریاست، سائنس، ٹیکنالوجی اور سرمایہ دارانہ نظام کا وکیل ہے، یہاں کوئی آزاد فلسفی نہیں، سب نظام حاضر و موجود کے کارندے ہیں، یہ جدید ریاست کے آلہ کار ہیں، ایک دو استثناءات کے سوا، یہ بات ہم نہیں کہہ رہے امریکہ کا ریاستی فلسفی رچرڈ رارٹی کہ رہا ہے، وہ لکھتا ہے کہ یونیورسٹیوں کے شعبۂ فلسفہ میں فلسفہ کی موت واقع ہو چکی ہے، رچرڈ رارٹی کے خیال میں یونیورسٹیوں کے فلسفیوں میں تمام فلسفی آزاد فلسفی نہیں، نظام حاضر و موجود کے کارندے ہیں، وہ ارسطو اور افلاطون کی طرح آزادنہ سوچنے کے قابل ہی نہیں ہیں، اس لئے بڑا فلسفہ پیدا نہیں ہو سکتا، وہ عصری اور قدیم فلسفے کے درمیان فرق بتاتے ہوئے لکھتا ہے کہ جدید فلسفہ صرف فلسفہ افادیت پرستی پر یقین رکھتا ہے، فلسفہ کا ایک شاندار ماضی تھا اب اس کا مستقبل غیر یقینی ہے، رچرڈ رارٹی نے عہد حاضر کی علمیت اور یونانی فلسفے اور جدید مغربی فلسفے میں بنیادی فرق کا استدلال اپنے خطاب
Is Philosphy Relevent to Applied Ethics?
میں نہایت عالمانہ، محققانہ اور فلسفیانہ سطح پر اختصار سے پیش کر دیا ہے، وہ جدید فلسفے اور یونانی فلسفے میں فرق بتاتے ہوئے جدید دنیا کے بارے میں جو کچھ بتاتا ہے اس میں غور وفکر کا بہت سامان موجود ہے وہ کہتا ہے _
Philosophy has a glorious past and an uncertain future. When we turn from the past to the present, however, we remember that we are (Philosphers) not being paid to foment intellectual or social revolutions. We have been hired by colleges and universities to be responsible professionals, content to work within a well-defined area of expertise. As philosophy became one more academic discipline, it became harder for philosophers to do something bold and original. history of class struggle.
The principal reason for this marginalization is that the so-called “warfare between science and theology” has tapered off. By and large, science has triumphed. Despite occasional flare-ups, such as the current assault on evolutionary biology, most Westerners who read books are content to let their view of the universe be shaped by the natural sciences. Religious faith has been revised, by most educated believers, so as not to conflict with the stories scientists tell. As long as the warfare between science and theology lasted, there was an important role for philosophical theories to play. For thinkers like Hobbes, Spinoza, Hume, Kant, Hegel, Mill, and Marx all confronted an urgent question: how can the moral idealism common to Platonism, Judaism, and Christianity survive after we have accepted a materialist account of the way the universe works? What is the place of moral ideals in a clockwork universe?
تفصیل کےلئے دیکھئے!
Is Philosophy Relevant To Applied Ethics? Invited Address to the Society of Business Ethics Annual Meeting. August 2020, Richard Rorty. URL: http:// www.jstor.org/stable/3857921 __