جناب نیاز سواتی
کیا امت کا زوال سائنس و ٹیکنالوجی میں پس ماندگی کی وجہ سے ہے؟ سائنس و ٹیکنالوجی کو عام طور پر ایک ہی سمجھا جاتا ہے مگر ان دونوں کے درمیان فرق ہے، سائنس تو معلومات کو منطق اور تجربے پر پرکھ کر متعین قوانین کی دریافت کا نام ہے، اس کے مقابلے میں ٹیکنالوجی، معلوم شدہ سائنسی قوانین کا اطلاق کرکے ایسی اشیاء کی تیاری کا طریقہ کار ہے جن کی مارکیٹنگ ممکن ہو اور ان اشیاء کی تیاری پر آنے والی لاگت اس کی قیمت فروخت سے کم ہو، اگر کسی ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کی جانے والی اشیاء کی لاگت ان کی قیمت فروخت سے زیادہ ہو تو ایسی ٹیکنالوجی ترک کر دی جائے گی، سائنس تو ایک علم کا نام ہے مگر موجودہ دور کی ٹیکنو سائنس کا گہرا تعلق سرمایہ داری کی ساتھ ہے، ٹیکنالوجی سرمایہ داری کی اقدار اپنے ساتھ لے کر آتی ہے، اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جن معاشروں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو عروج حاصل ہوا ان تمام معاشروں میں مذہبی، اخلاقی اور خاندانی اقدار زوال پذیر ہو گئیں، امریکی اور یورپی معاشرے اس کی واضح مثال ہیں اور اب چین بھی اسی راہ پر گامزن ہے، تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج جو مغربی تہذیب نے پیش کیا وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا تھا اور ہے، اس چیلنج کا جواب سرسید سے لے کر اب تک یہی دیا گیا ہے کہ مغرب نے اب تک کی تمام ترقی سائنس وٹیکنالوجی کے طفیل کی ہے لہٰذا امت مسلمہ کو بھی اگر ترقی کے راستے پر جانا ہے اور مغرب کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں بھی سائنس وٹیکنالوجی کا وہی ہتھیار حاصل کرنا پڑے گا جو مغرب کے پاس ہے _____
اس کے مقابلے میں دوسرے مکتب فکر کا خیال ہے کہ تاریخ کا مطالعہ اس بات کو غلط ثابت کرتا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت قومیں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتی ہیں، اس سلسلے میں سب سے پہلی مثال مسلم افواج کے ہاتھوں ایران اور روم کی طاقتوں کی شکست ہے، ایران کی عظیم الشان سلطنت کے انہدام کے بعد روم کے دار السلطنت قسطنطنیہ کی فتح نے اسباب، عسکری قوّت اور ٹیکنالوجی کے بجائے ایمان کو برتر طاقت ثابت کر دیا، بعد کے تاریخ میں تاتاریوں کے عباسی سلطنت پر حملے اور قبضے نے اس موقف کو استحکام بخشا، تاتاریوں نے جب عباسی سلطنت پر حملہ کیا تو عباسی سلطنت دنیا کے تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی، اس سلطنت میں علم کے عروج کا یہ عالم تھا اس کہ بیت الحکمت میں اٹھائیس زبانوں میں ترجمہ کرنے کا انتظام موجود تھا، خود دربار میں منطق، فلسفے اور انشاء پر بحثیں معمول کا حصہ تھیں، گھوڑوں، تلواروں اور لشکر میں عباسی سلطنت کا کوئی ثانی نہ تھا مگر صحرائے گوبی کے وحشی تاتاریوں نے آناََ فاناََ عباسی سلطنت کو الٹ کر رکھ دیا، اس زمانے کی سائنس میں عباسیوں کا عروج اور عظیم الشان مملکت کی شان وشوکت انہیں تاتاریوں کے ہاتھوں شکست سے نہ بچا سکی، تاریخ نے بتایا کہ کم تر وسائل اور سائنس سے بیگانگی تاتاریوں کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکی اور نہ ہی عباسیوں کی علمی برتری انہیں شکست سے محفوظ رکھ سکی، دوسری طرف یہ ہوا کہ عالم اسلام نے عباسی سلطنت کی شکل میں اپنا ملک کھو دیا مگر تاریخ نے یہ بھی بتایا کہ عالم اسلام نے دوبارہ تاتاریوں پر غلبہ حاصل کرکے اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کر دیا مگر سب کچھ سائنس کی بدولت نہ ہوا بلکہ ہوا یہ کہ تاتاریوں نے بلاشبہ جنگ کے ذریعے مسلمانوں کے مغلوب کر لیا مگر اسلام کے آفاقی پیغام سے شکست کھا گئے اور تاتاریوں کی بہت بڑی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا، بقول اقبال مرحوم ___
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اقبال مرحوم کہتے ہیں ___
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
اب تاتاریوں کی عسکری قوت اسلام کی طاقت میں ڈھل گئی اور اسلام نے اپنی عسکری شکست کو محض اپنے ابدی پیغام کی قوت سے فتح میں بدل کر دوبارہ عروج حاصل کر لیا ____
موجودہ دور کا منظر نامہ دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کی فتح و شکست کبھی سائنس و ٹیکنالوجی کی مرہون منّت نہیں رہی، ویت نام اور امریکہ کی جنگ میں امریکہ کی تمام تر عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کی برتری اسے شکست سے نہ بچا سکی، اس سے قبل افغانستان پر حملہ کرنے والی برطانیہ کی چالیس ہزار افواج میں سے صرف ایک ڈاکٹر جان بچا کر واپس آ سکا مگر کہا جاتا ہے انسان نے تاریخ سے یہی سبق سیکھا ہے کہ اس نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا لہٰذا روس بھی اسی افغانستان پر حملہ آور ہوا مگر افغان جنگ نے روسی معیشت کا جنازہ نکال دیا، یہاں تک کہ اس وقت کے روسی صدر برزنیف نے افغانستان کو روس کےلئے ایک رستا ہوا ناسور قرار دے کر اس جنگ سے پسپائی اختیار کر لی، ایک بار پھر ٹیکنالوجی ہار گئی اور ایمان کو فتح حاصل ہوئی _____
سائنسی وسماجی علوم کی برتری کے باوجود مسلمانوں کی شکست کا ایک ثبوت مسلم ہسپانیہ کا سقوط ہے جس کا درد ناک مرثیہ اقبال مرحوم نے لکھا، آج بھی سائنس و ٹیکنالوجی کو عروج و زوال کا واحد سبب سمجھنے والے اندلس میں مسلمانوں کی سائنسی برتری کا بہت چرچا کرتے ہیں مگر مسلم اسپین کا انجام کا ذکر کرتے ہوئے انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اسپین کے مسلمانوں کی برتری اور بلند وبالا عمارات انہیں نہ صرف یہ کہ شکست سے نہیں بچا سکیں بلکہ اسپین سے مسلمانوں کا وجود ہی صفحہ ہستی سے ہی مٹ گیا، آج اسپین، وہ اسپین جسے اقبال مرحوم نے خون مسلم کا امیں قرار دیا اسی اسپین میں جامع مسجد، الحمراء کے محلات اور دیگر پر شکوہ عمارات تو باقی ہیں مگر مسلمان باقی نہیں ہیں، اس کے مقابلے میں مشرق وسطیٰ میں اسلام اور مسلمان اپنی سائنسی پسماندگی کے باوجود زندہ و توانا رہے، اسلام کے ابدی پیغام کی قوت کے بدولت آج حضرت صالح اور ابراہیم علیہما السلام کی تعلیمات تو باقی ہیں مگر حیرت انگیز ٹیکنالوجی سے کام لے کر پہاڑوں میں گھر اور اہرام مصر بنانے والوں کا تذکرہ بھی باقی نہ بچا اور اگر کہیں ان کا ذکر ہوتا ہے تو عبرت کی خاطر، فأعتبروا یا اولی الابصار _____
تاریخ کے واضح پیغام کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ نے اپنی سائنس وٹیکنالوجی، دولت اور عسکری طاقت کے زعم میں روس افغان جنگ سے چور چور افغانستان پر حملہ کر دیا، اس جنگ میں افغانستان کے پڑوسی ملک پاکستان نے امریکہ کی ایک دھمکی کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے امریکہ کا بھر پور ساتھ دیا، اس جنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان دنیا کی بہترین افواج، قدرتی وسائل، بڑی آبادی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے باوجود محض ایک دھمکی میں ڈھیر ہوگیا مگر بغیر کسی باقاعدہ فوج، بڑی آبادی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے افغان مجاہدین نے امریکہ کو شکست دی اور بیس سال تک ایک ایسی جنگ میں مصروف رکھا تھا جس نے امریکی فوج پر اس کی ٹیکنالوجیکل برتری کے باوجود تھکن طاری کر دی تھی، اس وقت کے نمایاں ترین مغربی جریدوں اور اخبارات کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی سے مسلح امریکی فوج کے افسر اور جوانوں نے افغانستان میں خودکشی کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں، اس وقت کے اعداد وشمار بتا رہے تھے کہ خود کشی کرنے والے امریکی فوجی میدان جنگ میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد سے بھی زیادہ تھیں اور ان سے زیادہ تعداد ان سپاہیوں اور افسروں کی تھی جو نفسیاتی امراض کا شکار ہو کر ناکارہ ہو چکے تھے، اس کے مقابلے میں افغان مجاہدین کا مورال اس قدر بلند تھا کہ وہ نیٹو فورسز کے کابل میں قائم کردہ محفوظ ترین گرین زون میں بھی کامیاب حملے کر رہے ہیں تھے اور اپنی فتح کے بارے پر امید تھے _____
اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ٹیکنالوجی واقعی کوئی عروج زوال اور انسانی مسائل کےلئے فائدہ مند ہے؟ نسل انسانی نے اپنے آغاز سے آج تک جس ادارے کے سبب اپنا وجود قائم رکھا ہے وہ خاندان کا ادارہ ہے، ٹیکنالوجی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی کو عروج حاصل ہوا ہے وہاں خاندان کے ادارے کو نقصان پہنچا ہے، خاندان سے وابستہ دیگر معاشرتی و مذہبی اقدار بھی ٹیکنالوجی کے حامل معاشروں میں زوال کا شکار ہوگئیں، جرائم، خود کشی کے حوالے سے پہلے مغربی ممالک آگے آگے تھے اب اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ چین خود کشی کی شرح میں سب سے آگے جا رہا ہے کیونکہ سائنس وٹیکنالوجی میں چین کی ترقی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، روزنامہ ٹائمز کا تجزیہ ہے خود کشی میں اضافے کا براہ راست تعلق ٹیکنالوجی میں ترقی سے ہے، آج دنیا میں جرائم، خود کشی اور خاندان کے زوال کا سب سے زیادہ شکار وہی ممالک ہیں جو ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں، ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں انسانی صحت اور ماحول کو پہنچنے والا ناقابل تلافی نقصان اس معاملے کا درد ناک پہلو ہے جو ٹیکنالوجی کی حامل قوموں کی سنگدلی اور دریدہ د ہنی کا شاہکار ہے، ۲۰۰۹ کوپن ہیگن میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ماہرین نے مسئلہ اٹھایا تھا کہ ٹیکنالوجیکل گروتھ اور اس کے پیدا کردہ کچرے کی وجہ سے دنیا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اس صورت حال میں دنیا اگلے پچاس سال کے دوران رہنے کے قابل نہیں رہے گی لہٰذا تمام ریاستوں کو مل کر دنیا کے مجموعی درجہ حرارت کو کم از کم چار ڈگری سینٹی گریڈ کم کرنا پڑے گا، اس طرح انسانیت کو سکون کے پچاس سال مل جائیں گے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیرپا ترقی (Development Sustainable) کے متبادل طریقے وضع کئے جا سکیں گے، کانفرنس کی اس دستاویز پر عالمی درجہ حرارت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے امریکہ، چین، روس، بھارت اور یورپی ممالک کسی نے دستخط نہیں کیے، انہوں نے کہا کہ دنیا کا درجہ حرارت کم کرنے کا مطلب ٹیکنالوجیکل ڈیویلپمنٹ کا عمل سست کرنا ہے جس کےلئے ہم تیار نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ہمارا جو نقصان ہوگا اس کا کون ذمہ دار ہوگا؟ اس کانفرنس میں کہا گیا کہ چین اور بھارت کی ٹیکنالوجی، یورپی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ردی (Obsoleted Technology) ہے جو بہت زیادہ آلودگی پیدا کرتی ہے لہٰذا یہ دونوں ممالک اپنے ٹیکنالوجیکل ترقی کو سست کریں مگر ان دونوں ممالک نے کہا کہ ہم اس ٹیکنالوجی پر کئی بلین ڈالرز خرچ کر چکے ہیں وہ ہمیں دیدیں جائیں، مغربی ممالک نے اس ادائیگی سے انکار کر دیا بالآخر اس کانفرنس میں شریک تمام ترقی یافتہ یورپی اور تیزی سے ترقی پذیر ممالک چین اور بھارت نے بزبان حال اور بزبان قال بھی کہا کہ دنیا جائے بھاڑ میں ہمیں اس سے کیا سروکار؟ اس کانفرنس کی صدارت کرنے والی خاتون نے اس کانفرنس کی قرار داد کا مسوّدہ پھاڑ دیا اور یہ کہہ کر چلی گئی کہ ”ان ممالک نے صنعتی ترقی کو انسانیت کے مستقبل پر ترجیح دے دی ہے لہٰذا اس دنیا کا اللہ ہی حافظ ہے“ یہ حیرت انگیز بات اس خاتون سے قبل جرمنی کے مشہور مفکر ہائی ڈیگر نے اپنی کتاب Questions Concerning Technology میں کہی، ہائی ڈیگر نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ٹیکنالوجی کے عفریت اور اس کے پیدا کردہ مسائل سے دنیا کو کون بچائے گا؟ تو ہائی ڈیگر کا جواب تھا کہ ”ٹیکنالوجی کے عفریت سے دنیا کو صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے“ حالانکہ وہ خود خدا کو نہیں مانتا تھا _____
ٹیکنالوجی کے ذریعے مغرب کو شکست دینے کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ مغرب تیسری دنیا کو جدید ٹیکنالوجی ٹرانسفر نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ متروک شدہ (Obsoleted) ٹیکنالوجی دیتا ہے، ایسی ٹیکنالوجی کو ہمارے ہاں اعلیٰ اور جدید تحقیق کے نچوڑ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ایسی صورت حال میں جب کہ امت نے مغرب سے مقابلے کی ٹھان لی ہو تو کیا مغرب خود جدید ترین ٹیکنالوجی طشتری میں رکھ کر پیش کرے گا؟ کہ یہ لو مجھے اسی ٹیکنالوجی سے ختم کردو، ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں، اس مسئلے کا دوسرا حل سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق ہے مگر مغربی ممالک کو اس میدان پیچھے چھوڑنا ناممکن ہے، مغربی ممالک کو ان کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اربوں روپے کی سرمایہ کاری اس مد میں کر رہی ہیں، سائنسی تحقیق کے جس میدان میں ہم ابتدائی پیش رفت کر رہے ہیں مغربی ممالک اس میں کئی دہائیاں بلکہ نصف صدی آگے ہیں، اس کی مثال ہمارا ایٹمی پروگرام ہے، کہا جاتا ہے کہ اس پروگرام نے پاک بھارت جنگ کو روک رکھا ہے اور یہ پروگرام پاکستان کے تحفظ کی ضمانت ہے ورنہ بھارت پاکستان کو ہضم کر چکا ہوتا، اس کے مقابلے میں ایک سوال یہ ہے کہ اس پروگرام کے آغاز سے قبل پاکستان کا تحفظ کون کر رہا تھا؟ اس پر مستزاد پاکستان کے موجودہ حالات ہیں، ایبٹ آباد کے واقعے نے ہماری ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیا ہے، بجائے اس کے کہ ایٹمی پروگرام ملک کا تحفظ کرے پوری قوم اٹیمی اثاثوں کے تحفظ کےلئے فکر مند ہے _____
ٹیکنالوجی کی بحث میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی جن مسائل کا سبب ہے ان میں ایک بے حسی بھی ہے جو براہِ راست ٹیکنالوجی کے استعمال سے وابستہ ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ ماضی میں انسان جنگوں میں تلوار اور تیر و تفنگ کے ذریعے ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار تھا، ان جنگوں میں تلوار استعمال کرنے والا اپنی بہیمیت کے نتائج کا خود مشاہدہ بھی کرتا تھا اور ان سے متاثر بھی ہوتا تھا، ان قدیم جنگوں میں جب تاتاریوں جیسے سفاک حملہ آوروں کی تلواریں بغداد کے ان بے بس مسلمان بچوں، عورتوں اور بزرگوں پر پڑیں جنہوں نے اپنے آخری وقت میں کلمہ طیبہ کو یاد رکھا تو تاتاریوں کو کلمہ طیبہ کے پیغام کی طاقت اور اور خود اپنی طاقت کی کمزوری کا احساس ہوا، اسی احساس نے تاتاریوں کے کیمپ میں ایمان کی شمع روشن کی ورنہ بغداد کی عسکری و علمی طاقت تو ہزیمت سے دوچار ہو چکی تھی اگر تاتاری اسلام کے ابدی پیغام سے متاثر نہ ہو جاتے تو اس وقت دنیا کی کون سی طاقت تھی جو انہیں دشمن ِاسلام سے مجاہد اسلام میں تبدیل کر سکتی؟ ٹیکنالوجی کا استعمال انسانوں کو اپنے عمل کے نتائج اور مضمرات سے غیر متعلق (Detach) کر دیتا ہے، ایٹمی ٹیکنالوجی استعمال کر کے امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں بڑے پیمانے پر تباہی مچادی اور لاکھوں انسانوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ بے شمار افراد کو اپاہج بنا دیا مگر امریکہ کی حکومت اور وہاں کے عوام اس انسانی المیہ سے غیر متعلق رہے کیونکہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے نتیجے میں کسی زخمی اور متوفی جاپانی کے خون کے چھینٹے ان کے ہاتھوں پر نہیں پڑے اور نہ اس المیے کا انہوں نے اس جنگ میں مشاہدہ کیا، ایک امریکی ہوائی جہاز نے جا کر یہ تباہی کر دی اور بس مگر آج تک ہیروشیما اور ناگا ساکی کے اپاہج پیدا ہونے والی جاپانی نسل اس حملے کے نتائج بھگت رہی ہے _____
روایتی اور جدید ٹیکنالوجی میں فرق یہ ہے کہ تلوار سے ہونے والی جنگ انسان کو زندگی اور اس کے حقائق سے جوڑ کر (Attach) کر کے رکھتی تھی اور اس کے برعکس جدید ٹیکنالوجی زندگی کے تلخ حقائق سے انسان کو کاٹ دیتی ہے، فرض کریں کہ پنٹاگون میں بیٹھے ہوئے امریکی افسروں کو معلوم ہو کہ کراچی کے ایک ادارے میں بیٹھ کر کچھ لکھاری امریکہ کے خلاف لکھ اور بول رہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکی دفاعی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے تو وہ امریکی افسر ایک ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر بڑے اطمینان سے امریکی بحری بیڑے کو ہماری عمارت پر میزائل داغنے کا حکم دیکر مزے سے آئس کریم کھاتے ہوئے میزائل حملے کے نتائج دیکھ سکتا ہے، اس کے مقابلے میں قدیم طریقے سے دو بہ دو لڑنے والا فوجی ہو سکتا ہے کہ بے گناہ بچوں اور بزرگوں کی خون میں لت پت لاشوں کے منظر کی تاب نہ لا سکے اور ہو سکتا ہے اپنے ہتھیار سے خود اپنے آپ کو ہی قتل کر دے یا اپنے عقیدے پر موت تک استقامت کا مظاہرہ کرنے والے اہل ایمان سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لے _____
آج عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے زبردست پروپیگنڈے اور مہم کے باوجود اسلام انتہائی تیزی سے انہی ممالک میں پھیل رہا ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں، مغربی یورپ میں قبولیت اسلام کی بلند شرح اسلام کے ابدی پیغام کی قوت کی مظہر ہے ورنہ وہاں تو تمام تر ٹیکنالوجی اور میڈیا تو اسلام مخالف یہودیوں کے ہاتھ میں ہے، یہ امر تو واضح ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی تو عاد وثمود اور اہرام مصر سے لے کر آج تک ہر زمانے میں موجود رہی ہے مگر اس سلسلے میں یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا قدیم و جدید ٹیکنالوجی کا مقصد اور طریقے کار یکساں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم دور میں سائنس کا مقصد تلاش حقیقت تھا اور ٹیکنالوجی کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل رہا ہے مگر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا واحد مقصد سرمایے کا زیادہ سے زیادہ ارتکاز ہے، ایسی ہر ایک ایجاد جو سرمایے میں اضافے کا باعث نہ بن سکے فروغ نہیں پا سکتی