دینی، فکری، احیائی، انقلابی، جہادی، مزاحمتی اور تبلیغی جماعتوں اور ردعمل کی تحریکوں کے کام میں تطبیق کے ساتھ ساتھ اپنے کام کے مسلسل ومستقل محاسبے کی ضرورت ہے، اب نہ پیغمبر تشریف لائیں گے، نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے نفوسِ قدسیہ میسر آ سکیں گے لہذا اپنے کام، کارکردگی اور ارادوں کا تنقیدی جائزہ مسلسل لینے کی ضرورت ہے، ہم پر کوئی تنقید کرے تو اس تنقید کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ تنقید کرنے والا اگر ہمارا مخالف اور دشمن بھی ہے تب بھی اس کی تنقید ہمیں فائدہ دیتی ہے اور وہ ناقدین جو دین سے محبت رکھتے ہیں، دین کےلئے کام کرتے ہیں ان کی تنقید کو نہایت توجہ سے پڑھنا چاہیے بلکہ اس پر ناقد سے آزادانہ تبادلہ خیال ہونا چاہیے اس سے تحریکوں، تنظیموں اور جماعتوں کو بے پناہ فائدہ ہوتا ہے لیکن عمومی مزاج یہ ہے کہ تنقید دیکھ کر ہم سب بدمزہ ہو جاتے ہیں لہذا اس تنقید کے فوائد سے محروم رہتے ہیں، ہمارے بعض احباب نے ہمارا تعارف بعض عسکری تنظیموں اور ردعمل کی متشدد تحریکوں سے بھی کرایا مثلاً جماعت اسلامی کے سابق رکن مولانا صوفی محمد صاحب کی تحریک نفاذ شریعت محمدی سے جس نے ضیاء الحق کے دور میں شہرت حاصل کی، تحریک کے نمائندے سے ہماری ملاقات مشرف دور میں ہوئی جب وہ سوات میں شریعتِ محمدی کا نفاذ اور شرعی عدالتوں کا قیام چاہ رہے تھے، ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر ریاست آپ کے مطالبات پورے نہ کرے تو آپ کیا کریں گے؟ جواب ملا جہاد، ہم نے سوال کیا جہاد تو کافر ریاست کے خلاف کیا جاتا ہے لیکن آپ نے ابھی تک ریاست کی تکفیر نہیں کی تو جہاد کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، ہم نے ان سے سوال کیا کہ آپ ایک کافر ریاست سے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں یا ایک اسلامی امارت سے نظام اسلام کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ اور یہ مطالبہ بھی مقامی کیوں ہے شریعت صرف سوات میں کیوں وہاں تو پہلے ہی شریعت نافذ ہے؟ فاٹا (FATA) میں شریعت نافذ ہے ان تمام علاقوں کی معاشرت، تہذیب، ثقافت، مزاج، عادات، اطوار، روایات، اقدار سب کچھ مذہبی ہے، یہاں تو صرف چند اصلاحات کی ضرورت ہے بحیثیتِ مجموعی یہ علاقے اور ان کی معاشرت اسلام کا اچھا نمونہ پیش کرتی ہے، آپ کراچی میں شرعی عدالت اور نفاذ شریعت کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ کراچی کا تقابل آپ شمالی علاقہ جات اور سوات سے کریں تو پہلے آپ کو کراچی پر توجہ دینی چاہیے ان کا جواب تھا کراچی ہمارا مسئلہ نہیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ پاکستانی ریاست کو کفر کا حامی سمجھتے ہیں تو حامیان کفر سے آپ نفاذ شریعت کے مطالبات کیوں کر رہے ہیں؟ کیا اسلامی تاریخ اور انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں شریعت کفار حکمرانوں سے مطالبات کے ذریعے نافذ کرائی گئی؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا؟ تو آپ آج کے حکمرانوں سے نفاذ شریعت کی بات کس اصول پر کر رہے ہیں؟ ان سے پوچھا کہ آپ جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے ساتھ گفتگو، تعاون کےلئے تیار نہیں کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ یہ جمہوری سیاسی جماعتیں ہیں اور جمہوریت کفر ہے لہذا ان جماعتوں سے بات چیت نہیں ہو سکتی لیکن آپ پاکستان کی جمہوری ریاست اور اس کی پارلیمنٹ سے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس نے آپ کے مطالبات قومی اسمبلی سے منظور بھی کرا لئے ہیں تو کیا یہ بہت بڑا تضاد نہیں ہے؟ ان لوگوں کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا یعنی اصلا یہ ردعمل کی تحریک تھی کسی بات پر غصہ آیا آپے سے باہر ہوئے اور ہتھیار اٹھا لئے اس عمل کی کوئی ٹھوس بنیاد، کوئی اصول، کوئی نظیر ان کے سامنے نہیں تھی ___
کچھ اسی طرح کا مکالمہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہوا، ان کے حامی ہم سے تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی مالی، اخلاقی اور سیاسی مدد حاصل کرنے تشریف لائے، ہم نے ان سے سوال کیا آپ کا ریاست سے اختلاف کیا ہے؟ یہ اختلاف کب شروع ہوا؟ اس اختلاف کی بنیاد کیا ہے؟ روس سے جہاد کے وقت تو ریاست آپ کی مکمل پشت پناہی کر رہی تھی اب ریاست کو کیا ہوگیا یا ریاست کیا ہوگئی؟ کہنے لگے ریاست کہتی ہے امریکہ سے جہاد نہ کرو یہ جہاد نہیں فساد ہے، ہم امریکہ کے حلیف ہیں تم کو امریکہ سے نہیں لڑنے دیں گے لہذا اب شریعت کا حکم بدل گیا ہے، انہوں نے خود کو امریکہ کا حلیف کہا ہے ہم نے سوال کیا کہ پاکستانی ریاست تو اپنے آغاز سے ہی امریکہ کی آلہ کار ہے، امریکہ کی حلیف ہے اور اس نے بار بار امریکہ سے دوستی، امداد، قرضوں کا سامان کیا ہے تو اس وقت آپ نے ریاست کے خلاف جہاد کیوں نہ کیا؟ محمد علی جناح نے ۱۹۴۷ء میں امریکی صدر ٹرومین کو خط لکھا کہ ہم سب سے پہلے مدد کیلئے آپ کی طرف پھر برطانیہ کی طرف دیکھتے ہیں، ہمیں دو بلین ڈالر قرضے کی ضرورت ہے جس کا زیادہ تر حصہ فوج کیلئے درکار ہے، جناح صاحب کا خط کے عارف (K.Arif) کی کتاب Pak America Relations (2 Volumes) کے پہلے حصے میں دوسرے صفحے پر موجود ہے، اسی کتاب میں امریکی سفیر کے وہ خطوط بھی شامل ہیں جو اس نے پاکستان کی جغرافیائی صورتحال کے حوالے سے امریکا کو لکھے جس میں کہا گیا کہ کمیونزم کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ہر اول دستے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے عالم اسلام میں کمیونزم کو روکنے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کی جغرافیائی حالت کی وجہ سے ہمیں اس سے اچھے تعلقات رکھنا چاہیئں اور اس کی مدد کرنا چاہیے، ہم نے ان کی خدمت میں کتاب پیش کی، عبارات سنائیں، حوالے دکھائے، آپ بھی پڑھیے! امریکی سفیر نے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو لکھا:
I believe it would be in our national interest to accord recognition to the new dominion of Pakistan. Pakistan will be the largest Muslim country in the world & will occupy one of the most strategic areas in the world
(۱۷ جولائی ۱۹۴۷ء دستاویز نمبر ایک ص ۳)
۲ ستمبر ۱۹۴۷ء دستاویز نمبر ۳ وزیر خزانہ غلام محمد کی امریکی سفیر سے گفتگو پڑھئے پہلی جلد کا صفحہ ۳
The minister said that the burden of protecting India has been placed on Pakistan
اس گفتگو میں روس کا ذکر ہے، ہند کی طرف روس کے آنے کے خطرہ کا تذکرہ ہے اور اپنی خدمات امریکہ کو پیش کرنے کی آرزو ہے، یہ آغاز ہے اسلامی مملکت پاکستان کا، جناح صاحب نے اکتوبر ۱۹۴۷ء میں دستاویز نمبر چھ جلد اول صفحہ ۵،۶ پر امریکی صدر کے نام خط میں لکھا
She (Pakistan) has to look firstly to the USA & then to Great Britain for assistance. We would need a loan of two billion dollars from USA
افغانستان، روس کی جانب سے خطرے کا ذکر کرتے ہوئے جناح صاحب کے خط میں لکھا گیا
The proximity and vulnerability of Western Pakistan to Russia, is the most threat, the defense of India will become almost an impossibility. If Pakistan is to become strong enough to defend itself, with Great Britain & the USA the inhabitants of Pakistan will rise up to any occasion when the occasion does come. What is needed is finance and more than that a regular source of finance
اگر اسلامی ریاست کی امداد، طاقت اور قوت کا سرچشمہ امریکہ اور عظیم برطانیہ تھے تو کیا کفار کی مدد سے دار الاسلام مضبوط کیا جاتا ہے؟ تحریک پاکستان میں ہندوستان کو دار الحرب کہا گیا اور پاکستان کو دار الاسلام مولانا مفتی شفیع صاحب کا فتویٰ مسلم لیگ نے تقسیم کیا لیکن اب صورتحال اچانک کیسے بدل گئی؟ امریکی سفیر نے تو علماء کے بارے میں امریکی صدر کو لکھا کہ یہ ہماری ماڈرن پاکستانی ریاست کے دشمن ہیں
Uneducated religious leaders (Mullahs) who oppose the present Western minded government and favor a return to primitive Islamic principles
(دستاویز ۶۲ ص ۶۴)
ہم نے کہا آپ کے علماء اور رہنماؤں کو تو پاکستان بنتے ہی اس کے خلاف جہاد شروع کر دینا چاہیے تھا لیکن آپ تو ستر (۷۰) سال تک خاموش رہے، اب اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ریاست کے خلاف جہاد شروع کر دیا جائے؟ جواب ملا ہم جہاد نہیں کر رہے ریاست کے خلاف خروج کر رہے ہیں، ہم نے کہا خروج تو اسلامی امارت کے خلاف ہوتا ہے، جہاں کا پبلک لاء شریعت اسلامی ہوتی ہے، صرف حکمران طبقہ کفر بواح کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے خلاف خروج کیا جا سکتا ہے لیکن خروج کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ پاکستان کو اسلامی امارت تسلیم کرتے ہیں؟ کہنے لگے نہیں! ہم اسے کافر ریاست کہتے ہیں؟ ہم نے پوچھا تو پھر خروج کیسے ہوا؟ اس کے خلاف تو جہاد ہوگا اور جہاد کی شرائط امت کے فقہاء نے طے کر دی ہیں، جہاد بھی اسی کے مطابق ہوگا، ہم نے پوچھا چلئے! مان لیا کے خروج کرنا ہے تو خروج ہمیشہ کسی شخص کے خلاف ہوتا ہے جو امیر، خلیفہ اور حاکم ہوتا ہے یعنی وہاں جہاں شخصی حکومت ہو پاکستان تو جدید ریاست ہے یہ شخصی حکومت نہیں تو خروج کس کے خلاف کریں گے؟ صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، چیف جسٹس، آرمی چیف، اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کہ یہ سب ریاست کے ستون ہیں اور ان اراکین اسمبلی کو بھی عوام نے منتخب کیا ہے تو کیا ان ووٹروں کے خلاف بھی خروج ہوگا جنہوں نے ان نمائندوں کو منتخب کر کے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھیجا تو آپ کا خروج پاکستان کے تمام لوگوں کے خلاف ہوگا طاقت کے تمام مراکز کے خلاف ہوگا تو کیا آپ کے پاس اتنی قوت، طاقت اور افراد ہیں جو سترہ کروڑ لوگوں سے لڑ سکیں؟ جدید ریاست کے خلاف تو خروج ہو ہی نہیں سکتا اس کے خلاف تو انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جس طرح کے چین، روس، امریکا، فرانس، ایران اور کیوبا میں آیا، آپ اکیسویں صدی کی جدید ریاست سے واقف ہی نہیں ہیں، کہنے لگے نہیں! یہ کافر ریاست ہے ہم اس کے خلاف جہاد کر رہے ہیں، ہم نے سوال کیا کہ جہاد آخری چارہ کار ہے جب تمام راستے بند ہو جاتے ہیں تو آخری میدان جہاد کا ہوتا ہے یعنی ہم غازی بن کر زندہ رہیں گے یا شہید ہو جائیں گے، آپ تو کئی بار مذاکرات کیلئے جہاد کو ملتوی کر چکے ہیں، آج کل مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابرہیم کے ذریعے آپ حکومت سے صلح کی بات کر رہے ہیں، جہاد میں تو جہاد ہوتا ہے مذاکرات نہیں ہوتے، اسلامی تاریخ میں کفار سے جہادی مذاکرات کا ثبوت نہیں ملتا، جہاد کے بعد صرف جہاد ہوتا ہے مذاکرات نہیں، اسلامی تحریکوں کو ہم یہ تفصیلات اس لئے پیش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے دلائل کا از سرنو جائزہ لیں جذبات میں، غصے میں، اشتعال میں، جوش خطابت میں اعتدال کی روش برقرار رکھیں، یہ سوچیں کہ ان کے دلائل کتنے کمزور ہیں اور ان دلائل میں کس قدر تضاد ہے، ان دلائل کو سننے والا صرف حیرت زدہ ہی ہو سکتا ہے __
ایک دعوتی سیاسی انقلابی جماعت کے ایک اہم رہنما سے ہم نے پوچھا کے آپ کی جماعت اگر ایک انقلابی جماعت ہے تو کیا وہ سیاست کے ذریعے انقلاب لانا چاہتی ہے جس طرح جرمنی اور روس میں آیا کہ انتخابات میں کامیاب ہوتے ہی اعلان کر دیا گیا کہ ہم جمہوریت کا خاتمہ کرتے ہیں یا آپ امریکہ، فرانس، چین، کیوبا، ایران کی طرح انقلاب لانا چاہتے ہیں تو وہ ہمارے سوالات کا جواب نہیں دے سکے، ہم نے عرض کیا اگر انتخابی سیاسی عمل میں مستقل اور مسلسل حصہ لیتے رہنے کا نام انقلاب ہے تو جمعیت علماء پاکستان، تحریک لبیک پاکستان اور جمعیت علماء اسلام تمام انقلابی جماعتیں ہیں جو سیاسی عمل میں مسلسل شریک ہیں اور کبھی یہ نہیں کہتیں کہ ہم جمہوریت کو ایک آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اگر ہم کامیاب ہو گئے تو اس پورے نظام کو روس اور جرمنی کی طرح الٹ دیں گے، ہم نے ان سے پوچھا کہ دعوتی جماعت تو ہر ایک کو انبیاء علیہم السلام کی طرح دعوت دیتی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی طرح بار بار اپنی امت سے کہتی ہے کہ اے لوگو! ہماری دعوت جو اللہ کی دعوت ہے اسے قبول کر لو ہم تم سے اس کا کوئی صلہ کوئی بدلہ نہیں چاہتے لیکن آپ ایک طرف دعوت دے رہے ہیں، دوسری طرف انتخابی عمل میں شریک ہو کر کسی کے حریف بھی بن رہے ہیں داعی کسی کا حریف نہیں ہوتا یہ تو Oxymoron رویہ ہے وہ جواب تو نہیں دے سکے لیکن ان کا بڑا پن یہ تھا کہ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس موضوع پر پڑھیں گے اور اپنے اکابرین سے بات کریں گے پھر ہمیں جواب دیں گے، اسلامی تحریکوں کے اکثر لوگوں کا حال ایسا ہی ہے لہذا ہماری تمام اسلامی تحریکوں جماعتوں سے جو عقیدہ اہل سنت والجماعت پر ایمان رکھتی ہیں یہی استدعا، عرض، درخواست اور التجا ہے کہ اپنی جماعت کے اہداف ومقاصد کیلئے شرعی دلائل مہیا کریں صرف جذبات کو مخاطب نہ بنائیں __
”پیغام پاکستان“ والے فتوے کے حوالے سے ہمیں ڈان کے کالم نگار عامر رانا کا ایک کالم یاد آیا جس میں رانا صاحب نے لکھا تھا کہ جنرل باجوہ نے اشرف غنی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پیغام پاکستان میں علماء سے افغانستان کےلئے بھی فتویٰ دلوائیں گے کہ جس طرح پاکستانی حکومت کے خلاف جہاد جائز نہیں اسی طرح افغان مسلم حکومت کے خلاف بھی جہاد جائز نہیں کیونکہ افغانستان ایک مسلم ملک ہے اور ان کی فوج مسلمان فوج ہے لیکن پاکستانی علماء نے افغانستان کے حق میں فتویٰ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ افغانستان دوسرا ملک ہے ہمارا اس سے کیا واسطہ ہم صرف پاکستان کے بارے میں فتویٰ دے سکتے ہیں اس طرح باجوہ صاحب کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی پیغام پاکستان کے فتوے کے باوجود TTP اور پاکستانی ریاست میں صلح نہ ہوسکی، افغانستان سے امریکہ کی پسپائی کے بعد TTP دوبارہ سرگرم عمل ہوئی حکومت پاکستان نے افغان حکومت سے درخواست کرکے TTP کی قیادت سے کابل میں براہِ راست مذاکرات کئے، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک ہفتے تک کابل میں مذاکرات کرتے رہے لیکن مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے، مفتی تقی عثمانی صاحب کی طالبان قیادت سے ملاقات ہوئی لیکن وہ مفتی صاحب کے دلائل سے متفق نہیں ہوئے، ہماری ملاقات کابل کے مذاکرات میں شریک طالبان کے ایک رہنما سے ہوئی موضوع یہ تھا کہ کیا TTP اور فوج میں صلح ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کس طریقے سے ہم نے عرض کیا صلح و جنگ آپ کا موضوع ہے؟ اور فوج کے جنرل فیض حمید سے آپ کی بات چیت کامیاب نہ ہوسکی تو ہم آپ کو کیا تجویز دے سکتے ہیں لیکن چند سوالات ہیں جو ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت نہ ہوتی تو کیا آپ پاکستانی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے؟ وہ خاموش رہے ہم نے پوچھا پاکستانی ریاست آپ کو تاریخ کے کس موڑ پر کافر نظر آئی یعنی افغان طالبان کے وجود میں آنے اور امریکہ سے لڑنے کے نتیجے میں ہی آپ کو ریاست پاکستان غیر اسلامی محسوس ہونے لگی اس سے پہلے ستر سال تک آپ کو اور آپ کے حامی علماء کو یہ ریاست اسلامی کیوں محسوس ہوتی رہی؟ آپ میں اور آپ کے مکتب فکر کے علماء میں اختلاف کیوں ہوگیا پھر اچانک یہ احساس اتنی شدید نفرت میں کیوں بدل گیا؟ طالبان سے رابطے نے اور امریکہ کے خلاف طالبان کے جہاد نے اور امریکی حکومت کے حامی کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو امریکی نواز حکومت سمجھنے کے بعد ہی آپ کو پاکستان کی دینی حیثیت کے بارے میں شک ہوا کیا یہ بات درست ہے؟ جواب میں کہنے لگے ہم پاکستان کو پہلے دن سے اسلامی ریاست ہی نہیں مانتے ہم نے عرض کیا یہ تو آپ کا دعویٰ ہے آپ کے اکابرین نے تو اسے اسلامی ریاست ہونے کی بار بار سند دی ہے بلکہ علماء تو کہتے ہیں کہ پاکستان ہم نے بنایا کہنے لگے انہیں بھی غلط فہمی ہوئی تھی مگر یہ غلط فہمی جلد دور ہوگئی علماءکو پتہ چل گیا تھا بلکہ ہمارے بہت سے علماء پاکستان بنتے ہی اس ملک کی اصل حقیقت سے واقف ہو بھی گئے تھے لیکن حالات ایسے تھے کہ اس وقت اس کی حقیقت عوام پر واضح کرنا نئے فسادات پیدا کرتا تقسیم کو لوٹایا نہیں جا سکتا تھا مثلاً جناح صاحب کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر جس میں انہوں نے کہا کہ اب یہاں پاکستان میں نہ ہندو ہندو رہے گا نہ مسلمان مسلمان، مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں، یہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، ریاست اس معاملے میں غیر جانبدار ہے، یہ تقریرہی نظریہ پاکستان کی نفی تھی اور اس فتوے کا بھی انکار تھا جو تحریک پاکستان میں مفتی محمد شفیع نے لکھا اور لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوا کہ ہندوستان دار الحرب ہے پاکستان دار الاسلام، علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب نے جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر کے خلاف نہایت سخت بیان اخبارات کو جاری کیا، یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا، مرکز مطالعہ تاریخ لاہور پنجاب یونیورسٹی کی کتاب ”پاکستان میں ملائیت کا آغاز“ (مرتبہ ڈاکٹر جعفر) میں یہ بیان موجود ہے، یہ بیان ثبوت ہے کہ علماء کو گیارہ اگست کی تقریر سے ہی کھٹکا لگ گیا تھا، ۱۹۴۰ء کی قرارداد پاکستان میں اسلام کا ذکر نہیں ہے، پاکستان کے قومی ترانے میں اسلام کا ذکر نہیں ہے، یہ ترانہ موسیقی پر گایا گیا اس ملک میں (جو دس لاکھ شہیدوں کے خون سے بنا تھا) علماء نے مصلحتاً خاموشی اختیار کی، یہ پاکستان کا آغاز تھا وزارتیں بنیں تو کسی ایک مولوی کو کابینہ کا رکن نہیں بنایا گیا، نہ وزارت دی گئی، حتی کہ کسی اسلامی ملک کی سفارت کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا، قاضی عدالت بحال نہیں کی گئی جس کےلئے کسی ترمیم یا منصوبہ بندی کی کوئی ضرورت نہیں تھی ایک قادیانی اور ایک ہندو کو وزیر بنایا گیا کسی مولوی کو وزارت نہ ملی، ۱۹۷۷ء تک پاکستانی فوج میں شراب چلتی تھی، ضیاء الحق نے آ کر شراب پر پابندی لگائی، سرکاری افسران فوجی سب شراب پیتے تھے، امیر المومنین جناح صاحب کے پورے دور حکومت میں شراب چلتی رہی، شراب تک بند نہ کر سکے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر میں جناح صاحب نے صاف الفاظ میں کہا کہ ہم پاکستان میں اکبر کی عظیم ترین رواداری کے اصولوں کو زندہ کریں گے، علماء اکبر کی رواداری سے اچھی طرح واقف ہیں، نام دار الاسلام لکھا گیا اور جناح صاحب نے امیر المومنین کی حیثیت سے اور اس کے بعد تمام حکمران مالی امداد کےلئے پہلے امریکہ پھر عظیم برطانیہ کی طرف دیکھتے رہے، آزادی برطانیہ سے کفار سے ملی تھی تو ان کفار سے امداد اور کفار سے قرضے کیوں مانگے جا رہے تھے؟ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کا ملک تھا پاکستان جہاں اسلام نافذ نہیں کرتے تھے مگر اوپر سے نیچے تک اسلام پر لوگ باتیں کرتے رہتے تھے، ستر سال سے مغرب سے ہم قرضے لے رہے ہیں ہماری سڑکیں پل سب کافروں کے قرضے سے بنے ہیں، اس ملک کے نام میں صرف اسلامی لکھا ہوا ہے بس، میں تو یہ سوچ کر حیران ہوں کہ اس دار الاسلام میں نوے سال سے آج تک کوئی ٹرین کبھی نماز کےلئے نہیں روکی گئی، ٹرین نماز کےلئے نہیں رک سکتی جانے کی اتنی جلدی ہے، پورا ملک سر سے پیر تک قرضے میں ڈوبا ہوا ہے، کفار سے معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے، اسی فیصد عوام پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھا سکتے حالانکہ یہ زرعی ملک ہے، ملک میں کپڑا بنتا ہے مگر لوگ ننگے نظر آتے ہیں، ان کے جسم پر کپڑا نہیں کراچی میں ایک ایک کمرے کے گھرمیں آٹھ آٹھ لوگ رہتے ہیں، لوگ شہر میں پانی کےلئے ترستے ہیں، پانی خریدتے ہیں جبکہ پانی، نمک، چراگاہ کو فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نظریہ پاکستان تو لیاقت نہرو پیکٹ کے بعد تو ختم ہی ہوگیا جب دونوں نظریاتی ملکوں کے نہرو اور لیاقت علی خان نے جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر کو عملی جامہ پہناتے ہوئے کہا کہ ۱۹۵۰ء کے بعد ہندوستان سے کوئی مسلم پاکستان نہیں آئے گا نہ کوئی ہندو ہندوستان آئے گا یہ سب پاکستان اور ہندوستان کے شہری ہیں اپنے ملکوں میں رہیں گے، بھارت میں مسلمانوں کی عزت، مال، دولت کی حفاظت ہندو نہرو کرے گا یعنی پیکٹ کے ذریعے بتا دیا گیا کہ پاکستان جو ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کےلئے بنایا گیا تھا اب اس ملک میں کوئی ہندی مسلمان نہیں آ سکتا اب یہ قومی ریاست ہے، دار الاسلام نہیں ہے، طبقاتی کشمکش کا اس ملک میں کیا حال ہے، اس کی صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ آپ کو ائیرپورٹ سے لاہور سعودی عرب جانا ہے تو آپ کراچی ائیرپورٹ میں موٹر سائیکل، اسکوٹر، رکشہ لے کر اوپر نہیں جا سکتے، وہاں صرف گاڑیاں جا سکتی ہیں ہم نے سوال پوچھا کہ پاکستان پہلے دن سے قرض پر، امریکی امداد پر، سود پر چل رہا ہے تو کیا یہ سب کچھ ایک دن میں آپ کےلئے ختم کرنا ممکن ہے؟ آپ کو اقتدار دے دیں تو آپ ان تمام برائیوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں جو آپ نے بتائی ہیں؟ نہیں ہم ختم تو نہیں کر سکتے ہم نے پوچھا ہر مسئلے کا حل فوری ہونا چاہیے یا مسئلہ حل کرنے میں کچھ وقت بھی لگتا ہے، کہنے لگے وقت لگتا ہے ہم نے کہا اصولی طور پر جتنی باتیں کی گئی ہیں وہ سب درست ہیں لیکن کیا اس کے حل کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، عسکری جدوجہد؟ کیا اس ایک طریقے کے ساتھ دوسرے طریقے نہیں کام کر سکتے؟ عسکری جدوجہد کےلئے عوام کا تعاون ضروری ہے جیسے افغانستان میں تھا کیا آپ کی جدوجہد میں عوام شامل ہیں؟ طالبان کے ساتھ تو عوام بیس سال تک قربانیاں دیتے رہے، انہوں نے پوچھا ہمیں راستہ بتائیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہم نے عرض کیا جتنے سوالات پوچھے ہیں ان سب کا جواب تلاش کر کے لائیے ان مسائل کا حل سوچ کر آئیے ہم آپ کو راستے بتا دیں گے، کہنے لگے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے کہ ہم دہشتگرد ہیں کیا یہ درست ہے؟ ہم نے پوچھا کہ جئے سندھ تحریک پاکستان دشمن تحریک ہے کیا ریاست نے اسے دہشتگرد کہا ہے؟ پختون قومی موومنٹ قومی اسمبلی کی رکن بھی ہے ریاست کے خلاف بول رہی ہے تو کیا ریاست نے اسے دہشتگرد کہا ہے؟ کیا بلوچوں کو ریاست نے دہشتگرد کا خطاب دیا ہے؟ جو تمام بلوچ مسلح تنظیموں کے مکمل حامی ہیں پاکستان سے نفرت کرتے ہیں فوج کو گالیاں دیتے ہیں آزاد بلوچستان کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کو کیک میں سے بڑا حصہ دیا جائے جب ان سب کو دہشتگرد نہیں کہا جا رہا تو امریکی اصطلاح صرف TTP کے خلاف کیوں استعمال ہو رہی ہے کیا آپ نے جنرل فیض حمید سے یہ سوال کیا تھا؟ گیارہ ستمبر کے بعد دہشتگرد کی اصطلاح صرف طالبان عالیشان کےلئے امریکی صدر بش نے ایجاد کی تھی اور کہا تھا کہ دنیا یا امریکہ کے ساتھ ہوجائے یا دہشتگردوں کے ساتھ یا ادھر یا ادھر درمیان کا کوئی راستہ نہیں طالبان سے مذاکرات نہیں ہوں گے، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی لہذا ہم تو دہشت گرد کی اصطلاح کو نہیں مانتے TTP والے ہمارے ناراض بھائی ہیں اور ناراض بھائیوں کو منایا جاتا ہے ان سے مذاکرات اور مسلسل مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کئے جا سکتے ہیں ہمارا جہاں تک مطالعہ اور معلومات ہیں وہ یہ کہ صرف دو سوالات ہیں جن کے جوابات نہ علماءکے پاس ہیں نہ فوج کے پاس ہیں اگر ان دو سوالات کا طالبان TTP کو درست طریقے سے جواب دے دیا جائے اپنی غلطی، کمزوری اور مجبوری طالبان کے سامنے کشادہ دلی،سچائی سے رکھ دی جائے تو طالبان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن علماء نے اور ریاست نے ان سوالوں پر توجہ ہی نہیں دی .