٭ ہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ مذہبی، دینی، سیاسی جماعتیں ریاست پاکستان کے بارے میں جو بھی نقطہ نظر رکھتی ہیں اس پر انہیں حیرت کیوں نہیں ہوتی مثلاً ایک دعویٰ یہ ہے کہ پاکستان علماء نے بنایا تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کی کابینہ میں کسی مولانا کو وزیر بنایا گیا؟ کیا قاضی عدالت قائم ہوئی؟ ملک کا قومی ترانہ بنا تو ترانہ میں حرام موسیقی کو شامل کیاگیا یہ سب کچھ کون کر رہا تھا؟ علماء کیوں خاموش تھے مگر کیوں وہ امیر المومنین جناح صاحب سے یہ مطالبہ بھی نہ منوا سکے کہ حرام موسیقی ترانے سے نکال دو، ہم اسے کسی حالت میں تسلیم نہیں کریں گے، حیرت تو یہ ہے کہ علماء نے اپنے ہی دئیے گئے فتوے دار الاسلام کے خلاف لیاقت نہرو پیکٹ قبول کیا جس کے بعد دار الاسلام اور دار الکفر کا فرق ہی ہمیشہ کیلئے دفن ہو گیا اب پاکستان ہندوستان دونوں آزاد قومی ریاستیں تھیں ان کے شہری اپنے ملک کے شہری تھے اور پاکستان نہیں آ سکتے تھے، لیاقت نہرو پیکٹ کے بعد تحریک پاکستان کا یہ دعویٰ بھی حکومت پاکستان نے رد کر دیا کہ پاکستان دار الاسلام ہے اور ہندوستان دار الحرب، پاکستان کے قیام کے فوراً بعد امریکی سفیر نے صدر امریکہ کو پاکستان کے علماء کے بارے میں خط لکھا کہ ملا غیر تعلیم یافتہ Uneducated ہیں جو مغرب کی حلیف پاکستانی ریاست کے خلاف ہیں اور پاکستان کو دور ظلمات میں لے جانا چاہتے ہیں، امریکی سفیر پاکستانی ریاست اور علماء کو حلیف کے طور پر نہیں حریف کے طور پر دیکھ رہا ہے، ملا کو جاہل قرار دے رہا ہے، ریاست کو مغرب پرست کی دستار عطا کر رہا ہے اور ہم ابھی تک کچھ سوچنے سمجھنے پر تیار نہیں، مولوی، ملا، مدرسہ، مسجد، دینی تحریک، جہادی تنظیم، خانقاہ، اسلام، ہر شے سے مغرب کو نفرت ہے اور پاکستانی ریاست بھی اس کام میں پیچھے نہیں، امریکی سفیر نے اپنے خط میں (دستاویز 62 ص 64) دو خطروں کی نشاندہی کی، مولوی کا اسلام اور کمیونزم، یہ دونوں پاکستان کیلئے خطرہ تھے، علماءکے بارے میں وہ لکھتا ہے
Uneducated religious leaders (mullahs) who oppose the present Western minded government & a return to primitive Islamic principles
[K. Arif, Pak America Relations Volume 1,page 64, Document 62]
امریکی سفیر نے جو کچھ ۱۹۴۸ء میں لکھا تھا ریاست پاکستان مولوی کو آج بھی ایسا ہی سمجھتی ہے کہ یہ مولوی جاہل ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ ریاست پاکستان دینی مدارس کی تعلیم کو Washing Brain کہتی ہے اور اسکول کالج یونیورسٹی کی تعلیم کو Education کہتی ہے، جنرل باجوہ نے کوئٹہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ دینی مدارس یا تو مولوی پیدا کرتے ہیں یا دہشت گرد GHQ میں جنرل باجوہ کے کہنے پر دینی مدارس کے ان طلباءکو بلایا گیا جنہوں نے اسکول کالج کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کی کیونکہ یہ طلباء برین واشنگ کے دریا سے نکل کر قومی دھارے کا حصہ بن گئے تھے، سوال یہ ہے کہ باجوہ صاحب نے دینی مدارس کے امتحانات میں پوزیشن لینے والے طلباء و طالبات کو GHQ آنے کی دعوت کیوں نہیں دی؟ جواب باجوہ صاحب خود دے چکے ہیں کہ مدرسے مولوی یا دہشت گرد پیدا کرتے ہیں لہذا ان مولویوں کو کیسے مدعو کیا جا سکتا ہے، کیا دینی جماعتیں کبھی ان امور پر غور فرمائیں گی؟ جماعت اسلامی نے Educated مسلمان پیدا کرنے کی کوشش کی، انہوں نے کہا کہ ہمارے نظام تربیت سے جو حامی، رفیق، رکن، کارکن نکلتا ہے وہ دنیا کو بھی جانتا ہے اور مولوی سے بہتر جانتا ہے اور دین کو بھی اچھی طرح جانتا ہے، ہم مولوی پیدا نہیں کرتے پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان پیدا کرتے ہیں جو حمیت دینی اور غیرت دینی میں مولوی سے کم تر نہیں لیکن ریاست پاکستان نے جماعت اسلامی جیسی Educated جماعت کو بھی جو (Mullahs) نہیں تھی اسے بھی قبول نہیں کیا، ریاست نے PPP PML, NAP ,MQM, PTI کو قبول کیا انہیں اقتدار دیا مگر جماعت کو اقتدار کے قابل نہ سمجھا، جدید ریاست میں اسلام کی بات کرنے والا Uneducated ہی کہلاتا ہے، ریاست کو مولوی ہی نہیں مفکر اسلام، مدبر اسلام بھی پسند نہیں ہیں __
٭ علمائے کرام نے اور دینی جماعتوں نے خود کو مدرسہ، مسجد، خانقاہ، دفاتر تک محدود کر لیا ہے، ass Mobilization M کا تصور بالکل دھندلا گیا ہے، یہ تحفظ دین کی حکمت عملی ہے جس کی افادیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا، علماء ریاست سے مسابقت، مقابلے کے بغیر بھی اپنی طاقت، قوت، علمیت کے متبادل دائرے بنا سکتے ہیں، وہ ہر مسجد کو ایک مرکز میں بدل سکتے ہیں اور مسجد کے اردگرد واقع علاقے کو اسلامی حمیت کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں لیکن آج کل کچھ علماء اپنے مقتدیوں محلے والوں، پڑوسیوں کو بدلنے کے بجائے یوٹیوب چینل سے دنیا کو بدلنے کیلئے نکل گئے ہیں حالانکہ ان سے قیامت کے دن یہی پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنے نمازیوں، محلے والوں اور پڑوسیوں کو بدلنے کی کتنی کوشش کی؟ تم انہیں چھوڑ کر پوری دنیا کو مسلمان کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے تھے وہ تمہاری ثانوی ذمہ داری تھی پہلی ذمہ داری تو تمہارے علاقے کے لوگ تھے، مسجد کو مرکز بنا کر اصلاحی مجالس، پنچایتی کونسل قائم کی جا سکتی ہے تھانے، عدالت، ریاست کے اداروں کے پاس جانے کے بجائے عوام کے مسائل، تنازعات، اختلافات کا حل یہاں تلاش کیا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ نے پانچ سال پہلے غالباً ۵۳۹ معاملات کی فہرست جاری کی تھی اور ریاست کو حکم دیا تھا کہ اس طرح کے مقدمات عدالت کے بجائے پنچایت کی سطح پر حل کئے جائیں، پنچایت، جرگہ کا نظام ہر جگہ موجود ہے، اسے مضبوط کیا جائے اس کی اصلاح کی جائے اس میں علماء اور مفتی حضرات کو شامل کیا جائے تاکہ عوام پر ریاست کے اثر و نفوذ کو کم سے کم کیا جا سکے اس نظام سے انصاف بھی جلد از جلد حاصل ہوگا اور بلا معاوضہ حاصل ہوگا اور یہ نظام لوگوں کے معاشرتی تعلقات کی بہتری کا بہترین سبب بنے گا، اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں محلے میں پڑوسی کے کتے نے پڑوسی کے بچے کو کاٹ لیا پڑوسی نے تھانے میں رپورٹ لکھوا دی پڑوسی گرفتار ہوگیا عدالت سے ضمانت پر رہائی ہو گئی کیا اس عدالتی کاروائی کے بعد یہ دونوں پڑوسی اپنے تعلقات اچھے رکھ سکیں گے اس کے برعکس اس معاملے میں مسجد کمیٹی، محلہ کمیٹی، اصلاحی کمیٹی، پنچایت شامل ہو جاتی دونوں پڑوسیوں کو بٹھا کر صلح کروا دیتی تو کیا دونوں پڑوسیوں کے پرانے تعلقات بحال نہ ہو جاتے؟ عدالت، پولیس، ریاست کو جس معاملے میں داخل کیا جائے گا اس کے نتیجے میں معاشرتی تعلقات کا خاتمہ ہوگا اور آپس کی دشمنی بڑھتی جائے گی کیا ہماری دینی جماعتوں نے ان مسائل پر غور و فکر کو ترجیح دی ہے؟ __
٭ ہر متشدد، عسکری، مزاحمتی، مذہبی، اک نکاتی تحریک سے ریاست کا صرف ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ آپ قومی دھارے میں شامل ہو جائیں، قومی دھارے میں شامل ہونے کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ سیاسی جماعت بنیں اور سیاسی عمل میں شریک ہو جائیں کیونکہ ریاست کو معلوم ہے کہ جب تک یہ سیاسی عمل سے باہر رہیں گے ایک ناقابلِ تسخیر قوت رہیں گے جیسے ہی یہ سیاسی دھارے میں شامل ہوں گے ان کا انقلاب، جوش و ولولہ، مزاحمت، عسکریت، مطالبات، قوت، طاقت خود بخود ختم ہوتی چلی جائے گی، یہ بس مطالبات کی سیاست اور حقوق کی سیاست کرتے رہیں گے اور کبھی سیاسی کامیابی حاصل نہ کر سکیں گے جماعت الدعوہ کو ریاست نے یہی مشورہ دیا کہ وہ سیاسی جماعت بن جائے حالانکہ جماعت الدعوہ بھی ریاست کی سرپرستی میں ہی کام کر رہی تھی، انہوں نے ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بنا لی اور قصور کے ضمنی انتخابات میں تیسری پوزیشن حاصل کی، اسی الیکشن میں تحریک لبیک پاکستان نے دوسری پوزیشن حاصل کی پہلی پوزیشن مسلم لیگ کی تھی TLP کے سعد رضوی نے حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ وہ فرانسیسی سفیر کو باہر نکالے ورنہ کفن پوش دستے نکلیں گے، پنجاب پولیس نے رمضان کے مہینے میں TLP کے پچاس کارکنان شہید کئے، اخبارات میں میڈیا میں کوئی خبر نہیں آئی، حالات نازک سے نازک تر ہوتے گئے، وسطی پنجاب تک لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھے تو اچانک جنرل باجوہ برآمد ہوئے وزیراعظم کو گھاس تک نہیں ڈالی گئی، مفتی منیب الرحمان کو TLP سے معاملات طے کرنے کےلئے ایک سرمایہ دار عقیل کریم ڈھیڈی کے گھر پر بلوایا گیا، طے یہ ہوا کہ جو معاہدہ ہوا ہے وہ کسی کونہیں دکھایا جائے گا نہ پڑھایا جائے گا، اس کے ضامن جنرل باجوہ ہوں گے، معاہدہ کیا ہوا؟ کچھ پتہ نہیں چلا کیونکہ پاکستانی سیاست فوج کے سپرد ہے، وہ فیصلے کرتے ہیں اور مسئلہ حل ہو جاتا ہے، اس معاہدے کے نتیجے میں TLP کی مزاحمتی تحریک (جو وسطی پنجاب تک پہنچ چکی تھی) ختم ہو گئی، فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہوا اس کا پتہ نہ چلا، TLP سے کہہ دیا گیا کہ آپ سیاسی دھارے کا حصہ بنیں، سیاسی جماعت بنیں، پرامن احتجاجی تحریک چلائیں اور کوئی ایسا مطالبہ نہ کریں جس سے ریاست پاکستان کو عالمی، مالی، معاشی، سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے، ہر تحریک کا علاج ریاست کے پاس ایک ہی ہے کہ آپ سیاسی جماعت بن جائیں، ساری زندگی پرامن احتجاج کرتے رہیں، پرتشدد احتجاج برداشت نہیں کیا جائے گا اگر عوام آپ کو منتخب کر لیں تو آپ اقتدار میں آ جائیں، مذہبی سیاست کی سیاسی قوت کا حال یہ ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے پاس دو چار دس بارہ سیٹوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے مگر اس کے باوجود ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے وجود سے دینی مدارس محفوظ ہیں، ان کا نصاب تبدیل نہیں کیا جا رہا، ہم نہ ہوتے تو مدرسے ریاست کے قبضے میں ہوتے، ان بے چاروں کو یہ تک معلوم نہیں کہ پاکستان جیسی کمزور ریاست نہ دینی مدارس پر قبضہ کر سکتی ہے، نہ ان مدارس کو سرکاری امداد سے چلا سکتی ہے، بھٹو صاحب کے زمانے میں جو مدارس، مزارات، مساجد اوقاف نے اپنے قبضے میں لئے تھے ان کے حالات سب پر واضح ہیں، پاکستانی ریاست کی حالت یہ ہے کہ وہ سڑکیں نہیں بنا سکتی سڑکوں پر پڑی ہوئی لاشیں نہیں اٹھا سکتی، یہ کام ایدھی، چھیپا، NGO، الخدمت کر سکتے ہیں یعنی ایک ناکام، بے لگام، بے ہنگام، بے کار ریاست کی کمزوریاں دور کرنے اور خدمت خلق کرنے کیلئے یہ ادارے آ جاتے ہیں اسی لئے ستار ایدھی کی موت پر پاکستانی فوج کے سربراہ، صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس سب خراج تحسین پیش کرنے آئے تھے کہ جو کام ریاست نہ کرسکی وہ ستار ایدھی کر رہا ہے، اگر ستار ایدھی ریاست کی مدد نہ کرے تو ریاست میں انقلاب برپا ہو جائے تمام NGO’ S خواہ وہ جماعت الدعوہ کی ہوں یا جماعت اسلامی کی وہ نادانستہ طور پر خود ہی انقلاب کی راہ روک رہی ہوتی ہیں، ریاست کے ذمے تمام کام وہ خود کر کے لوگوں کے دلوں سے ریاست کی نفرت نکال دیتی ہیں، پاکستان پہلے دن سے اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے کئی ملکوں سے امداد لیتا رہا ہے، اس کا محل وقوع ہی اس کی آمدنی کا اصل ذریعہ ہے، دینی مدارس مساجد پر سعودی عرب کی طرح ریاستی کنٹرول ناممکن ہے، جناب غامدی صاحب توبار بار ریاست سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ مساجد پر قبضہ کر لو لیکن سوال یہ کہ لاکھوں مساجد کےلئے اربوں روپے کی تنخواہ کون دے گا اور سرکاری مولوی کہاں سے آئیں گے؟ جاوید غامدی کے مرید تو مساجد میں امامت کو بہت زیادہ اہم کام نہیں سمجھتے تو مولوی ریاست کہاں سے لائے گی؟ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد جدید مولویوں کو تیار کرنے کےلئے بنائی گئی تھی مگر وہاں کا فارغ التحصیل کوئی طالب علم کسی مسجد مدرسہ میں خدمت کرنے پر تیار نہیں وہ دنیا دار مولوی ہیں ان کا مسجد مدرسہ سے کیا تعلق ہمیں آج تک اس یونیورسٹی کا کوئی طالب علم مسجد، مدرسے میں خدمات انجام دیتے ہوئے نہیں مل سکا __
٭ علمائے کرام، دینی جماعتوں، تحریکوں اور دینی سیاسی جماعتوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جدید ریاست اور پاکستان کی جدید ریاست دینی علم کو علم کیوں نہیں سمجھتی اور دینی علم کی سرپرستی کیوں نہیں کرتی؟ وہ بار بار دینی علم کو Brain Washing کیوں کہتی ہے وہ بار بار دینی اداروں کی اصلاح کیلئے کوشاں کیوں رہتی ہے؟ ریاست کی خواہش ہے کہ تمام دینی مدارس خود کو کالج، یونیورسٹی میں تبدیل کر لیں دینی مدرسے ختم کر دیں، حال ہی میں کراچی کے ایک بہت بڑے مدرسے نے یونیورسٹی کا چارٹر حاصل کیا اور درس نظامی کو اسلامک اسٹڈیز فیکلٹی میں منتقل کر دیا، درس نظامی اب جدید یونیورسٹی کے ایک شعبہ دینی کے طور پر کام کرے گا ظاہر ہے یہاں وہ تقدس تو موجود نہ ہوگا جو مدرسہ کی عمارت میں ہوتا ہے، درس نظامی میں فیس دے کر ہر ایک داخلہ لے سکے گا کچھ عرصہ بعد لڑکیوں کے داخلے بھی شروع ہو جائیں گے، مدرسہ کی ساخت کا کلی خاتمہ ہو جائے گا، کانٹ کا کارنامہ ہے کہ اس نے عقلیت Rationalism اور تجربیت Empiricism کو ملا کر یہ تصور دیا کہ علم عقلی اور تجربی ہوتا ہے اور ریاضی کی زبان میں بیان ہوتا ہے جو علم عقل اور تجربے کے معیار پر نہ اترے وہ علم دائرہ علم سے باہر ہے، وہ جہالت ہے، گمر اہی ہے، اس علم کا تعلق سرمایہ سے بھی قائم ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بغیر سائنسی علم کام ہی نہیں کر سکتا لہذا ریاست کی تمام سرپرستی سائنسی علوم کو حاصل ہوئی اور اسے ہر ریاست نے بشمول پاکستانی ریاست علم کا درجہ دیا لہذا اس علم پر ریاست اربوں روپے خرچ بھی کرتی ہے سائنسی علم خریدا بھی جا سکتا ہے Import — Export / بھی ہو سکتا ہے اس علم کی Value Use ہی نہیں Exchange Value بھی ہوتی ہے، اس علم سے GDP, GNP, GNI, HDI میں اضافہ بھی ہوتا ہے، اس علم سے نوکری اور طاقت اور سرمایہ ملتا ہے، یہ علم سرپلس Money, Wealth, Capital, پیدا کرتا ہے، اس کے برعکس مذہبی علم کی Value Exchange نہیں یہ علم /Export Import نہیں ہو سکتا نہ اس سے آمدنی ہوتی ہے، نہ مذہبی علم کا GDP,GNP,GNI,HDI میں کوئی حصہ، نہ یہ علم زر مبادلہ Foreign Exchange کما سکتا ہے لہذا اس علم کی سرپرستی ریاست کیوں کرے؟ اتنی سی بات ہماری دینی جماعتوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے، یہ افسوس کا مقام ہے ہمیں یقین ہے کہ دینی جماعتیں ان موضوعات پر مکالمہ کریں گی اور مسائل کے حل کیلئے مثبت لائحہ عمل طے کریں گی __
٭ دینی، فکری، احیائی، انقلابی، جہادی، مزاحمتی، تبلیغی جماعتوں اور ردعمل کی تحریکوں کے کام میں تطبیق کے ساتھ ساتھ اپنے کام کے مسلسل ومستقل محاسبے کی ضرورت ہے، اب نہ پیغمبر تشریف لائیں گے، نہ صحابہ جیسے نفوسِ قدسیہ میسر آ سکیں گے لہذا اپنے کام، کارکردگی، ارادوں کا تنقیدی جائزہ مسلسل لینے کی ضرورت ہے، ہم پر کوئی تنقید کرے تو اس تنقید کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ تنقید کرنے والا اگر ہمارا مخالف، دشمن بھی ہے تب بھی اس کی تنقید ہمیں فائدہ دیتی ہے اور وہ ناقدین جو دین سے محبت رکھتے ہیں دین کےلئے کام کرتے ہیں ان کی تنقید کو نہایت توجہ سے پڑھنا چاہیے بلکہ اس پر ناقد سے آزادانہ تبادلہ خیال ہونا چاہیے اس سے تحریکوں، تنظیموں اور جماعتوں کو بے پناہ فائدہ ہوتا ہے لیکن عمومی مزاج یہ ہے کہ تنقید دیکھ کر ہم سب بدمزہ ہو جاتے ہیں لہذا اس تنقید کے فوائد سے محروم رہتے ہیں، ہمارے بعض احباب نے ہمارا تعارف بعض عسکری تنظیموں اور ردعمل کی متشدد تحریکوں سے بھی کرایا مثلاً جماعت اسلامی کے سابق رکن صوفی محمد صاحب کی تحریک نفاذ شریعت محمدی سے جس نے ضیاء الحق کے دور میں شہرت حاصل کی تحریک کے نمائندے سے ہماری ملاقات مشرف دور میں ہوئی جب وہ سوات میں شریعتِ محمدی کا نفاذ اور شرعی عدالتوں کا قیام چاہ رہے تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر ریاست آپ کے مطالبات پورے نہ کرے تو آپ کیا کریں گے؟ جواب ملا جہاد، ہم نے سوال کیا جہاد تو کافر ریاست کے خلاف کیا جاتا ہے لیکن آپ نے ابھی تک ریاست کی تکفیر نہیں کی تو جہاد کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، ہم نے ان سے سوال کیا کہ آپ ایک کافر ریاست سے اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں یا ایک اسلامی امارت سے نظام اسلام کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ مطالبہ بھی مقامی کیوں ہے شریعت صرف سوات میں کیوں وہاں تو پہلے ہی شریعت نافذ ہے FATA میں شریعت نافذ ہے ان تمام علاقوں کی معاشرت، تہذیب، ثقافت، مزاج، عادات و اطوار، روایات، اقدار سب کچھ مذہبی ہے یہاں تو صرف چند اصلاحات کی ضرورت ہے بحیثیتِ مجموعی یہ علاقے اور ان کی معاشرت اسلام کا اچھا نمونہ پیش کرتی ہے آپ کراچی میں شرعی عدالت اور نفاذ شریعت کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ کراچی کا تقابل آپ شمالی علاقہ جات اور سوات سے کریں تو پہلے آپ کو کراچی پر توجہ دینی چاہیے ان کا جواب تھا کراچی ہمارا مسئلہ نہیں ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ پاکستانی ریاست کو کفر کا حامی سمجھتے ہیں تو حامیان کفر سے آپ نفاذ شریعت کے مطالبات کیوں کر رہے ہیں؟ کیا اسلامی تاریخ اور انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں شریعت کفار حکمرانوں سے مطالبات کے ذریعے نافذ کرائی گئی؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا؟ تو آپ آج کے حکمرانوں سے نفاذ شریعت کی بات کس اصول پر کر رہے ہیں؟ ان سے پوچھا کہ آپ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان کے ساتھ گفتگو، تعاون کےلئے تیار نہیں کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ یہ جمہوری سیاسی جماعتیں ہیں اور جمہوریت کفر ہے لہذا ان جماعتوں سے بات چیت نہیں ہو سکتی لیکن آپ پاکستان کی جمہوری ریاست اور اس کی پارلیمنٹ سے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس نے آپ کے مطالبات قومی اسمبلی سے منظور بھی کرا لئے ہیں تو کیا یہ بہت بڑا تضاد نہیں ہے؟ ان لوگوں کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا یعنی اصلا یہ ردعمل کی تحریک تھی کسی بات پر غصہ آیا آپے سے باہر ہوئے اور ہتھیار اٹھا لئے اس عمل کی کوئی ٹھوس بنیاد، کوئی اصول، کوئی نظیر ان کے سامنے نہیں تھی __
٭ کچھ اسی طرح کا مکالمہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہوا، ان کے حامی ہم سے TTP کی مالی، اخلاقی، سیاسی مدد حاصل کرنے تشریف لائے، ہم نے ان سے سوال کیا آپ کا ریاست سے اختلاف کیا ہے؟ یہ اختلاف کب شروع ہوا؟ اس اختلاف کی بنیاد کیا ہے؟ روس سے جہاد کے وقت تو ریاست آپ کی مکمل پشت پناہی کر رہی تھی اب ریاست کو کیا ہوگیا یا ریاست کیا ہوگئی؟ کہنے لگے ریاست کہتی ہے امریکہ سے جہاد نہ کرو یہ جہاد نہیں فساد ہے، ہم امریکہ کے حلیف ہیں تم کو امریکہ سے نہیں لڑنے دیں گے لہذا اب شریعت کا حکم بدل گیا ہے، انہوں نے خود کو امریکہ کا حلیف کہا ہے ہم نے سوال کیا کہ پاکستانی ریاست تو اپنے آغاز سے ہی امریکہ کی آلہ کار ہے، امریکہ کی حلیف ہے اور اس نے بار بار امریکہ سے دوستی، امداد، قرضوں کا سامان کیا ہے تو اس وقت آپ نے ریاست کے خلاف جہاد کیوں نہ کیا؟ محمد علی جناح نے ۱۹۴۷ء میں امریکی صدر ٹرومین کو خط لکھا کہ ہم سب سے پہلے مدد کےلئے آپ کی طرف پھر برطانیہ کی طرف دیکھتے ہیں، ہمیں دو بلین ڈالر قرضے کی ضرورت ہے جس کا زیادہ تر حصہ فوج کےلئے درکار ہے، جناح صاحب کا خط کے عارف کی کتاب K.Arif: Pak America Relations (2 Volumes) کے پہلے حصے میں دوسرے صفحے پر موجود ہے، اسی کتاب میں امریکی سفیر کے وہ خطوط بھی شامل ہیں جو اس نے پاکستان کی جغرافیائی صورتحال کے حوالے سے امریکا کو لکھے جس میں کہا گیا کہ کمیونزم کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ہر اول دستے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے عالم اسلام میں کمیونزم کو روکنے کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اس کی جغرافیائی حالت کی وجہ سے ہمیں اس سے اچھے تعلقات رکھنا چاہیئں اور اس کی مدد کرنا چاہیے، ہم نے ان کی خدمت میں کتاب پیش کی، عبارات سنائیں، حوالے دکھائے، آپ بھی پڑھیے امریکی سفیر نے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو لکھا:
I believe it would be in our national interest to accord recognization to the new dominion of Pakistan. Pakistan will be the largest Muslim country in the world & will occupy one of the most strategic areas in the world
(۱۷ جولائی ۱۹۴۷ء دستاویز نمبر ایک ص ۳)
۲ ستمبر ۱۹۴۷ء دستاویز نمبر ۳ وزیر خزانہ غلام محمد کی امریکی سفیر سے گفتگو پڑھئے پہلی جلد کا صفحہ ۳
The minister said that the burden of protecting India has been placed on Pakistan
اس گفتگو میں روس کا ذکر ہے، ہند کی طرف روس کے آنے کے خطرہ کا تذکرہ ہے اور اپنی خدمات امریکہ کو پیش کرنے کی آرزو ہے یہ آغاز ہے اسلامی مملکت پاکستان کا جناح صاحب نے اکتوبر ۱۹۴۷ء میں دستاویز نمبر چھ جلد اول صفحہ ۵،۶ پر امریکی صدر کے نام خط میں لکھا
She (Pakistan) has to look firstly to the USA & then to Great Britain for assistance. We would need a loan of two billion dollars from USA
افغانستان، روس کی جانب سے خطرے کا ذکر کرتے ہوئے جناح صاحب کے خط میں لکھا گیا
The proximity and vulnerability of Western Pakistan to Russia is the most threat, the defence of India will become almost an impossibility. If Pakistan is to become strong enough to defend itself with Great Britain & the USA, the inhabitants of Pakistan will rise up to any occasion when the occasion does come. What is needed is finance and more than that a regular source of finance
اگر اسلامی ریاست کی امداد، طاقت اور قوت کا سرچشمہ امریکہ اور عظیم برطانیہ تھے تو کیا کفار کی مدد سے دار الاسلام مضبوط کیا جاتا ہے؟ تحریک پاکستان میں ہندوستان کو دار الحرب کہا گیا اور پاکستان کو دار الاسلام مولانا مفتی شفیع صاحب کا فتویٰ مسلم لیگ نے تقسیم کیا لیکن اب صورتحال اچانک کیسے بدل گئی؟ امریکی سفیر نے تو علماء کے بارے میں امریکی صدر کو لکھا کہ یہ ہماری ماڈرن پاکستانی ریاست کے دشمن ہیں :
Uneducated religious leaders (Mullahs) who oppose the present Western minded government and favour a return to primitive Islamic principles
(دستاویز ۶۲ ص ۶۴)
ہم نے کہا آپ کے علماء اور رہنماوں کو تو پاکستان بنتے ہی اس کے خلاف جہاد شروع کر دینا چاہیے تھا لیکن آپ تو ستر سال تک خاموش رہے، اب اچانک ایسا کیا ہو گیا ہے کہ ریاست کے خلاف جہاد شروع کر دیا جائے؟ جواب ملا ہم جہاد نہیں کر رہے ریاست کے خلاف خروج کر رہے ہیں، ہم نے کہا خروج تو اسلامی امارت کے خلاف ہوتا ہے، جہاں کا پبلک لاء شریعت اسلامی ہوتی ہے صرف حکمران طبقہ کفر بواح کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے خلاف خروج کیا جا سکتا ہے لیکن خروج کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ پاکستان کو اسلامی امارت تسلیم کرتے ہیں؟ کہنے لگے نہیں ہم اسے کافر ریاست کہتے ہیں؟ ہم نے پوچھا تو پھر خروج کیسے ہوا؟ اس کے خلاف تو جہاد ہوگا اور جہاد کی شرائط امت کے فقہاء نے طے کر دی ہیں، جہاد بھی اسی کے مطابق ہو گا، ہم نے پوچھا چلئے مان لیا کے خروج کرنا ہے تو خروج ہمیشہ کسی شخص کے خلاف ہوتا ہے جو امیر، خلیفہ، حاکم ہوتا ہے یعنی وہاں جہاں شخصی حکومت ہو پاکستان تو جدید ریاست ہے یہ شخصی حکومت نہیں تو خروج کس کے خلاف کریں گے صدر، وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، چیف جسٹس، آرمی چیف، اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کہ یہ سب ریاست کے ستون ہیں اور ان اراکین اسمبلی کو بھی عوام نے منتخب کیا ہے تو کیا ان ووٹروں کے خلاف بھی خروج ہوگا جنھوں نے ان نمائندوں کو منتخب کر کے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھیجا تو آپ کا خروج پاکستان کے تمام لوگوں کے خلاف ہوگا طاقت کے تمام مراکز کے خلاف ہوگا تو کیا آپ کے پاس اتنی قوت، طاقت اور افراد ہیں جو سترہ کروڑ لوگوں سے لڑ سکیں؟ جدید ریاست کے خلاف تو خروج ہو ہی نہیں سکتا اس کے خلاف تو انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جس طرح کے چین، روس، امریکا، فرانس، ایران، کیوبا میں آیا، آپ اکیسویں صدی کی جدید ریاست سے واقف ہی نہیں ہیں، کہنے لگے نہیں یہ کافر ریاست ہے ہم اس کے خلاف جہاد کر رہے ہیں ہم نے سوال کیا کہ جہاد آخری چارہ کار ہے جب تمام راستے بند ہو جاتے ہیں تو آخری میدان جہاد کا ہوتا ہے یعنی ہم غازی بن کر زندہ رہیں گے یا شہید ہو جائیں گے، آپ تو کئی بار مذاکرات کےلئے جہاد کو ملتوی کر چکے ہیں، آج کل مولانا سمیع الحق اور پروفیسر ابرہیم کے ذریعے آپ حکومت سے صلح کی بات کر رہے ہیں، جہاد میں تو جہاد ہوتا ہے مذاکرات نہیں ہوتے، اسلامی تاریخ میں کفار سے جہادی مذاکرات کا ثبوت نہیں ملتا، جہاد کے بعد صرف جہاد ہوتا ہے مذاکرات نہیں، اسلامی تحریکوں کو ہم یہ تفصیلات اس لئے پیش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے دلائل کا ازسرنو جائزہ لیں جذبات میں، غصے میں، اشتعال میں، جوش خطابت میں اعتدال کی روش برقرار رکھیں، یہ سوچیں کہ ان کے دلائل کتنے کمزور ہیں اور ان دلائل میں کس قدر تضاد ہے، ان دلائل کو سننے والا صرف حیرت زدہ ہی ہو سکتا ہے __
٭ ایک دعوتی سیاسی انقلابی جماعت کے ایک اہم رہنما سے ہم نے پوچھا کے آپ کی جماعت اگر ایک انقلابی جماعت ہے تو کیا وہ سیاست کے ذریعے انقلاب لانا چاہتی ہے جس طرح جرمنی اور روس میں آیا کہ انتخابات میں کامیاب ہوتے ہی اعلان کر دیا گیا کہ ہم جمہوریت کا خاتمہ کرتے ہیں یا آپ امریکہ، فرانس، چین، کیوبا، ایران کی طرح انقلاب لانا چاہتے ہیں تو وہ ہمارے سوالات کا جواب نہیں دے سکے، ہم نے عرض کیا اگر انتخابی سیاسی عمل میں مستقل اور مسلسل حصہ لیتے رہنے کا نام انقلاب ہے تو جمعیت علماء پاکستان، تحریک لبیک پاکستان اور جمعیت علماء اسلام تمام انقلابی جماعتیں ہیں جو سیاسی عمل میں مسلسل شریک ہیں اور کبھی یہ نہیں کہتیں کہ ہم جمہوریت کو ایک آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اگر ہم کامیاب ہو گئے تو اس پورے نظام کو روس اور جرمنی کی طرح الٹ دیں گے، ہم نے ان سے پوچھا کہ دعوتی جماعت تو ہر ایک کو انبیاء علیہم السلام کی طرح دعوت دیتی ہے اور انبیاء علیہم السلام کی طرح بار بار اپنی امت سے کہتی ہے کہ اے لوگو! ہماری دعوت جو اللہ کی دعوت ہے اسے قبول کر لو ہم تم سے اس کا کوئی صلہ کوئی بدلہ نہیں چاہتے لیکن آپ ایک طرف دعوت دے رہے ہیں، دوسری طرف انتخابی عمل میں شریک ہو کر کسی کے حریف بھی بن رہے ہیں داعی کسی کا حریف نہیں ہوتا یہ تو Oxymoron رویہ ہے وہ جواب تو نہیں دے سکے لیکن ان کا بڑا پن یہ تھا کہ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس موضوع پر پڑھیں گے اور اپنے اکابرین سے بات کریں گے پھر ہمیں جواب دیں گے، اسلامی تحریکوں کے اکثر لوگوں کا حال ایسا ہی ہے لہذا ہماری تمام اسلامی تحریکوں جماعتوں سے جو عقیدہ اہل سنت والجماعت پر ایمان رکھتی ہیں یہی استدعا، عرض، درخواست اور التجا ہے کہ اپنی جماعت کے اہداف ومقاصد کےلئے شرعی دلائل مہیا کریں صرف جذبات کو مخاطب نہ بنائیں __
٭ ”پیغام پاکستان“ والے فتوے کے حوالے سے ہمیں ڈان کے کالم نگار عامر رانا کا ایک کالم یاد آیا جس میں رانا صاحب نے لکھا تھا کہ جنرل باجوہ نے اشرف غنی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پیغام پاکستان میں علماء سے افغانستان کےلئے بھی فتویٰ دلوائیں گے کہ جس طرح پاکستانی حکومت کے خلاف جہاد جائز نہیں اسی طرح افغان مسلم حکومت کے خلاف بھی جہاد جائز نہیں کیونکہ افغانستان ایک مسلم ملک ہے اور ان کی فوج مسلمان فوج ہے لیکن پاکستانی علماء نے افغانستان کے حق میں فتویٰ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ افغانستان دوسرا ملک ہے ہمارا اس سے کیا واسطہ ہم صرف پاکستان کے بارے میں فتویٰ دے سکتے ہیں اس طرح باجوہ صاحب کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی پیغام پاکستان کے فتوے کے باوجود TTP اور پاکستانی ریاست میں صلح نہ ہوسکی، افغانستان سے امریکہ کی پسپائی کے بعد TTP دوبارہ سرگرم عمل ہوئی حکومت پاکستان نے افغان حکومت سے درخواست کرکے TTP کی قیادت سے کابل میں براہِ راست مذاکرات کئے، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک ہفتے تک کابل میں مذاکرات کرتے رہے لیکن مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے، مفتی تقی عثمانی صاحب کی طالبان قیادت سے ملاقات ہوئی لیکن وہ مفتی صاحب کے دلائل سے متفق نہیں ہوئے، ہماری ملاقات کابل کے مذاکرات میں شریک طالبان کے ایک رہنما سے ہوئی موضوع یہ تھا کہ کیا TTP اور فوج میں صلح ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کس طریقے سے ہم نے عرض کیا صلح و جنگ آپ کا موضوع ہے؟ اور فوج کے جنرل فیض حمید سے آپ کی بات چیت کامیاب نہ ہوسکی تو ہم آپ کو کیا تجویز دے سکتے ہیں لیکن چند سوالات ہیں جو ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت نہ ہوتی تو کیا آپ پاکستانی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے؟ وہ خاموش رہے ہم نے پوچھا پاکستانی ریاست آپ کو تاریخ کے کس موڑ پر کافر نظر آئی یعنی افغان طالبان کے وجود میں آنے اور امریکہ سے لڑنے کے نتیجے میں ہی آپ کو ریاست پاکستان غیر اسلامی محسوس ہونے لگی اس سے پہلے ستر سال تک آپ کو اور آپ کے حامی علماء کو یہ ریاست اسلامی کیوں محسوس ہوتی رہی؟ آپ میں اور آپ کے مکتب فکر کے علماء میں اختلاف کیوں ہوگیا پھر اچانک یہ احساس اتنی شدید نفرت میں کیوں بدل گیا؟ طالبان سے رابطے نے اور امریکہ کے خلاف طالبان کے جہاد نے اور امریکی حکومت کے حامی کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو امریکی نواز حکومت سمجھنے کے بعد ہی آپ کو پاکستان کی دینی حیثیت کے بارے میں شک ہوا کیا یہ بات درست ہے؟ جواب میں کہنے لگے ہم پاکستان کو پہلے دن سے اسلامی ریاست ہی نہیں مانتے ہم نے عرض کیا یہ تو آپ کا دعویٰ ہے آپ کے اکابرین نے تو اسے اسلامی ریاست ہونے کی بار بار سند دی ہے بلکہ علماء تو کہتے ہیں کہ پاکستان ہم نے بنایا کہنے لگے انہیں بھی غلط فہمی ہوئی تھی مگر یہ غلط فہمی جلد دور ہوگئی علماءکو پتہ چل گیا تھا بلکہ ہمارے بہت سے علماء پاکستان بنتے ہی اس ملک کی اصل حقیقت سے واقف ہو بھی گئے تھے لیکن حالات ایسے تھے کہ اس وقت اس کی حقیقت عوام پر واضح کرنا نئے فسادات پیدا کرتا تقسیم کو لوٹایا نہیں جا سکتا تھا مثلاً جناح صاحب کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر جس میں انہوں نے کہا کہ اب یہاں پاکستان میں نہ ہندو ہندو رہے گا نہ مسلمان مسلمان، مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں، یہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، ریاست اس معاملے میں غیر جانبدار ہے، یہ تقریرہی نظریہ پاکستان کی نفی تھی اور اس فتوے کا بھی انکار تھا جو تحریک پاکستان میں مفتی محمد شفیع نے لکھا اور لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوا کہ ہندوستان دار الحرب ہے پاکستان دار الاسلام، علامہ شبیر احمد عثمانی صاحب نے جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر کے خلاف نہایت سخت بیان اخبارات کو جاری کیا، یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا، مرکز مطالعہ تاریخ لاہور پنجاب یونیورسٹی کی کتاب ”پاکستان میں ملائیت کا آغاز“ (مرتبہ ڈاکٹر جعفر) میں یہ بیان موجود ہے یہ بیان ثبوت ہے کہ علماء کو گیارہ اگست کی تقریر سے ہی کھٹکا لگ گیا تھا، ۱۹۴۰ء کی قرارداد پاکستان میں اسلام کا ذکر نہیں ہے، پاکستان کے قومی ترانے میں اسلام کا ذکر نہیں ہے، یہ ترانہ موسیقی پر گایا گیا اس ملک میں (جو دس لاکھ شہیدوں کے خون سے بنا تھا) علماء نے مصلحتاً خاموشی اختیار کی، یہ پاکستان کا آغاز تھا وزارتیں بنیں تو کسی ایک مولوی کو کابینہ کا رکن نہیں بنایا گیا، نہ وزارت دی گئی، حتی کہ کسی اسلامی ملک کی سفارت کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا، قاضی عدالت بحال نہیں کی گئی جس کےلئے کسی ترمیم یا منصوبہ بندی کی کوئی ضرورت نہیں تھی ایک قادیانی اور ایک ہندو کو وزیر بنایا گیا کسی مولوی کو وزارت نہ ملی، ۱۹۷۷ء تک پاکستانی فوج میں شراب چلتی تھی، ضیاء الحق نے آ کر شراب پر پابندی لگائی، سرکاری افسران فوجی سب شراب پیتے تھے، امیر المومنین جناح صاحب کے پورے دور حکومت میں شراب چلتی رہی، شراب تک بند نہ کر سکے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر میں جناح صاحب نے صاف الفاظ میں کہا کہ ہم پاکستان میں اکبر کی عظیم ترین رواداری کے اصولوں کو زندہ کریں گے، علماء اکبر کی رواداری سے اچھی طرح واقف ہیں، نام دار الاسلام لکھا گیا اور جناح صاحب نے امیر المومنین کی حیثیت سے اور اس کے بعد تمام حکمران مالی امداد کےلئے پہلے امریکہ پھر عظیم برطانیہ کی طرف دیکھتے رہے، آزادی برطانیہ سے کفار سے ملی تھی تو ان کفار سے امداد اور کفار سے قرضے کیوں مانگے جا رہے تھے؟ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کا ملک تھا پاکستان جہاں اسلام نافذ نہیں کرتے تھے مگر اوپر سے نیچے تک اسلام پر لوگ باتیں کرتے رہتے تھے، ستر سال سے مغرب سے ہم قرضے لے رہے ہیں ہماری سڑکیں پل سب کافروں کے قرضے سے بنے ہیں، اس ملک کے نام میں صرف اسلامی لکھا ہوا ہے بس، میں تو یہ سوچ کر حیران ہوں کہ اس دار الاسلام میں نوے سال سے آج تک کوئی ٹرین کبھی نماز کےلئے نہیں روکی گئی، ٹرین نماز کےلئے نہیں رک سکتی جانے کی اتنی جلدی ہے، پورا ملک سر سے پیر تک قرضے میں ڈوبا ہوا ہے، کفار سے معاہدوں میں جکڑا ہوا ہے، اسی فیصد عوام پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھا سکتے حالانکہ یہ زرعی ملک ہے، ملک میں کپڑا بنتا ہے مگر لوگ ننگے نظر آتے ہیں، ان کے جسم پر کپڑا نہیں کراچی میں ایک ایک کمرے کے گھرمیں آٹھ آٹھ لوگ رہتے ہیں، لوگ شہر میں پانی کےلئے ترستے ہیں، پانی خریدتے ہیں جبکہ پانی، نمک، چراگاہ کو فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نظریہ پاکستان تو لیاقت نہرو پیکٹ کے بعد تو ختم ہی ہوگیا جب دونوں نظریاتی ملکوں کے نہرو اور لیاقت علی خان نے جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر کو عملی جامہ پہناتے ہوئے کہا کہ ۱۹۵۰ء کے بعد ہندوستان سے کوئی مسلم پاکستان نہیں آئے گا نہ کوئی ہندو ہندوستان آئے گا یہ سب پاکستان اور ہندوستان کے شہری ہیں اپنے ملکوں میں رہیں گے، بھارت میں مسلمانوں کی عزت، مال، دولت کی حفاظت ہندو نہرو کرے گا یعنی پیکٹ کے ذریعے بتا دیا گیا کہ پاکستان جو ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کےلئے بنایا گیا تھا اب اس ملک میں کوئی ہندی مسلمان نہیں آ سکتا اب یہ قومی ریاست ہے، دار الاسلام نہیں ہے، طبقاتی کشمکش کا اس ملک میں کیا حال ہے، اس کی صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ آپ کو ائیرپورٹ سے لاہور سعودی عرب جانا ہے تو آپ کراچی ائیرپورٹ میں موٹر سائیکل، اسکوٹر، رکشہ لے کر اوپر نہیں جا سکتے، وہاں صرف گاڑیاں جا سکتی ہیں ہم نے سوال پوچھا کہ پاکستان پہلے دن سے قرض پر، امریکی امداد پر، سود پر چل رہا ہے تو کیا یہ سب کچھ ایک دن میں آپ کےلئے ختم کرنا ممکن ہے؟ آپ کو اقتدار دے دیں تو آپ ان تمام برائیوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں جو آپ نے بتائی ہیں؟ نہیں ہم ختم تو نہیں کر سکتے ہم نے پوچھا ہر مسئلے کا حل فوری ہونا چاہیے یا مسئلہ حل کرنے میں کچھ وقت بھی لگتا ہے، کہنے لگے وقت لگتا ہے ہم نے کہا اصولی طور پر جتنی باتیں کی گئی ہیں وہ سب درست ہیں لیکن کیا اس کے حل کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، عسکری جدوجہد؟ کیا اس ایک طریقے کے ساتھ دوسرے طریقے نہیں کام کر سکتے؟ عسکری جدوجہد کےلئے عوام کا تعاون ضروری ہے جیسے افغانستان میں تھا کیا آپ کی جدوجہد میں عوام شامل ہیں؟ طالبان کے ساتھ تو عوام بیس سال تک قربانیاں دیتے رہے، انہوں نے پوچھا ہمیں راستہ بتائیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہم نے عرض کیا جتنے سوالات پوچھے ہیں ان سب کا جواب تلاش کر کے لائیے ان مسائل کا حل سوچ کر آئیے ہم آپ کو راستے بتا دیں گے، کہنے لگے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے کہ ہم دہشتگرد ہیں کیا یہ درست ہے؟ ہم نے پوچھا کہ جئے سندھ تحریک پاکستان دشمن تحریک ہے کیا ریاست نے اسے دہشتگرد کہا ہے؟ پختون قومی موومنٹ قومی اسمبلی کی رکن بھی ہے ریاست کے خلاف بول رہی ہے تو کیا ریاست نے اسے دہشت گرد کہا ہے؟ کیا بلوچوں کو ریاست نے دہشت گرد کا خطاب دیا ہے؟ جو تمام بلوچ مسلح تنظیموں کے مکمل حامی ہیں پاکستان سے نفرت کرتے ہیں فوج کو گالیاں دیتے ہیں آزاد بلوچستان کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان کو کیک میں سے بڑا حصہ دیا جائے جب ان سب کو دہشت گرد نہیں کہا جا رہا تو امریکی اصطلاح صرف TTP کے خلاف کیوں استعمال ہو رہی ہے کیا آپ نے جنرل فیض حمید سے یہ سوال کیا تھا؟ گیارہ ستمبر کے بعد دہشت گرد کی اصطلاح صرف طالبان عالیشان کےلئے امریکی صدر بش نے ایجاد کی تھی اور کہا تھا کہ دنیا یا امریکہ کے ساتھ ہوجائے یا دہشت گردوں کے ساتھ یا ادھر یا ادھر درمیان کا کوئی راستہ نہیں طالبان سے مذاکرات نہیں ہوں گے، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی لہذا ہم تو دہشت گرد کی اصطلاح کو نہیں مانتے TTP والے ہمارے ناراض بھائی ہیں اور ناراض بھائیوں کو منایا جاتا ہے ان سے مذاکرات اور مسلسل مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کئے جا سکتے ہیں ہمارا جہاں تک مطالعہ اور معلومات ہیں وہ یہ کہ صرف دو سوالات ہیں جن کے جوابات نہ علماءکے پاس ہیں نہ فوج کے پاس ہیں اگر ان دو سوالات کا طالبان TTP کو درست طریقے سے جواب دے دیا جائے اپنی غلطی، کمزوری، مجبوری، طالبان کے سامنے کشادہ دلی،سچائی سے رکھ دی جائے تو طالبان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن علماء نے اور ریاست نے ان سوالوں پر توجہ ہی نہیں دی __
٭ ریاست نے آرمی ایکٹ میں سینٹ کے ذریعے ترامیم کر کے فوج کو قومی ترقی میں اہم کردار سونپ دیا ہے لیکن ایکٹ میں اس قومی ترقیاتی کردار کی کوئی تشریح نہیں کی گئی ہے دوسرے معنوں میں ایوب خان کا دور اس دور کا زرعی انقلاب دوبارہ فوج کے ذریعے ہی لایا جا رہا ہے لیکن منظر پر جمہوری حکومت موجود ہے فوج کے اس قومی کردار کےلئے نئی اصطلاح استعمال کی گئی Green initiative یہ اصطلاح خانیوال میں ماڈل ایگریکلچرل فارم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے استعمال کی ٹریبیون نے اس واقعے کی خبر لگائی COAS sets sight on agri revolution. ماڈل فارم کی تقریب کے صدر عاصم صاحب خود تھے انہوں نے کسانوں سے فرمایا سیکورٹی اور معیشت میں چولی دامن کا ساتھ ہے زرعی انقلاب آ کر رہے گا ؑGreen initiative کا یہ دائرہ پورے پاکستان میں پھیلایا جائے گا انہوں نے کہا فوج کو قوم کی خدمت کرنے پر فخر ہے ہم زرعی انقلاب لائیں گے، ہم اس ماڈل فارم کی طرز کے جدید فارم بنائیں گے، کشکول باہر اٹھا کر پھینک دیا (روزنامہ جنگ کراچی ص ۶، ۲۵ جولائی،۲۰۲۳ء) __
٭ آرمی ایکٹ میں ترمیم سے فوج کے معاشی، ترقیاتی کردار کو آئینی، قانونی، جمہوری، ریاستی تحفظ بھی حاصل ہو گیا سینیٹر رضا ربانی اور عامر بزنجو نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی شدید مخالفت کی اور واک آوٹ کیا ایکٹ کی ترامیم سے ثابت ہوا کہ جمہوریت، جمہوری سیاست، جمہوری حکمراں، جمہوری نظام بالکل ناکام ہو چکے ہیں اور فوج کو براہ راست کردار ادا کرنے کےلئے منظر پر آنا پڑا ہے، یہ صورت حال مذہبی سیاسی جماعتوں کےلئے غورو تدبر کا تقاضہ کرتی ہے ان کی سیاست کےلئے جو کچھ دائرہ باقی رہ گیا تھا وہ بھی ختم ہو گیا ہے اب فوج قومی امور کا حصہ ہے آپ کا کام کٹھ پتلی تماشہ ہے کیا آپ اس کام پر راضی ہیں یا کوئی انقلابی حکمت عملی وضع کرنے کےلئے تیار ہیں جمہوری سیاست کا حشر آرمی ایکٹ ترامیم کے بعد بالکل واضح ہے __
٭ مذہبی سیاسی جماعتیں جو پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے موہوم دعوے پر ستر سال سے اپنی سیاست چلا رہی ہیں اب ان کیلئے فلاحی نعرہ بھی بے معنی ہو گیا کیونکہ یہ نعرہ فوج نے اختیار کر لیا قومی ترقیاتی کام فوج براہ راست یا بالواسطہ کرے گی آرمی ایکٹ میں یہ ترمیم کر دی گئی ہے مذہبی جماعتیں کشکول توڑنے کا دعوی کرتی تھیں جنرل عاصم منیر نے کہہ دیا کہ ہم نے کشکول باہر اٹھا کر پھینک دیا مذہبی جماعتوں کے پاس تو اب پھینکنے کےلئے بھی کچھ نہ رہا ان کےلئے اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ جمہوری سیاست کے متبادل بے شمار راستوں پر کام کریں جو موجود ہیں، میسر ہیں، مہیا ہیں، فائدہ مند ہیں، انقلاب کو ممکن بنا سکتے ہیں، نظام پہلے Implode ہوتا ہے پھر Explode ہوتا ہے __
٭ علمائے کرام اور مذہبی سیاسی جماعتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں فوج اور پاکستانی ریاست نے ملا طارق جمیل کے ذریعے خاندانی منصوبہ بندی کا نعرہ لگوایا تھا اور طارق جمیل صاحب نے دو ہی بچے سب سے اچھے کے نعرے کی تصدیق بھی اسلام سے فرمائی تھی اس کانفرنس کے بعد دیوبندی علماء کی جانب سے مولانا طارق جمیل کا شدید معاشرتی مقاطعہ کیا گیا اور انہیں منظر سے ہٹا دیا گیا بنیادی سوال یہ تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کو خاندانی منصوبہ بندی پر سیمینار کرنے کا حکم کس نے دیا تھا؟ حکم انہوں نے ہی دیا تھا جنھوں نے کہا تھا کہ نواز شریف کو برطرف کرو موجودہ چیف جسٹس عطا محمد بندیال نے بھی خاندانی منصوبہ بندی پر ایک سیمینار پر خطاب کیا اور اسے پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک قرار دیا یعنی ثاقب نثار کا طے کردہ راستہ جو ریاست نے طے کیا تھا اس پر سفر جاری ہے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کی طرح آبادی کم کرنا ہوگی اور اب سینیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا بھی بیان آ چکا ہے
Exploding population threatens prosperity of our generation
ریاست نے پالیسی طے کر دی کہ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش اس کیلئے آئیڈیل ہیں وہاں کی طرح آبادی کو علماء فتویٰ اور مذہب کے ذریعے کنٹرول کرنا ہے پاکستانی علماء آج کی تاریخ میں خاندانی منصوبہ بندی کو حرام سمجھتے ہیں لیکن کیا مستقبل میں جب ریاست نئے پیغام پاکستان کیلئے انھیں بلائے گی تو کیا یہ ریاست کی بات ماننے سے انکار کر دیں گے؟ یہ ہے اصل سوال جس پر تمام مکاتب فکر کے علماءکو آج سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، بنگلہ دیش انڈونیشیا میں علماء کو سمجھا کر، منا کر، ورغلا کر، بہلا کر، اعداد و شمار کی بہار دکھا کر زور زبردستی سے خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں فتوے لئے گئے کیا پاکستان کی مذہبی تحریکیں، مذہبی سیاسی جماعتیں ریاست کا مقابلہ کر سکیں گی یا پیغام پاکستان کی طرح نئے پیغام پاکستان پر دستخط کر دیں گی؟ پیغام پاکستان میں علماءنے ریاست کو جہاد کا اختیار دیا حالانکہ کہ آئین پاکستان کے تحت ریاست جہاد نہیں کر سکتی صرف اپنا دفاع تحفظ کر سکتی ہے حیرت ہے کہ علماء نے آئین پڑھنے کی زحمت تک گوارا نہ کی اور ریاستی دباؤ میں آ کر دستخط کر دئیے __
٭ وہ علمائے کرام جو بار بار اپنی سادہ لوحی سے بتاتے ہیں کہ ہم اسمبلی میں ہیں، PDM میں ہیں، حکومت کے ساتھ بیٹھے ہیں تو یہ مدارس کے تحفظ کیلیے ہے یہ سب حقیقت نہیں سادہ لوحی بلکہ بے حد غلط اندازے ہیں ان علماء کا یہ بھی استدلال ہے کہ اگر ہم پارلیمنٹ میں، PDM میں، PPP اور مسلم لیگ کے ساتھ نہیں ہوتے، جمہوری سیاست میں، اتحادی سیاست میں، ملٹری کے ساتھ نہیں ہوں گے تو ریاست ہمارے مدارس کو بند کر دے گی ان کا خاتمہ کر دے گی اس کےلئے وہ ترکی کے کمال اتاترک کی مثال دیتے ہیں کہ اس نے مدارس و علماء کے ساتھ کیا کیا پاکستان کا کمال اتاترک جنرل مشرف جو بڑے فخر سے کہتا تھا کہ میرا ہیرو کمال اتاترک ہے مدارس کا کچھ نہیں کر سکا مدارس پاکستانی ریاست اور فوج کی کمزوری ہیں، مجبوری ہیں اس کے بغیر بھارت کے خلاف مزاحمت نہیں ہو سکتی اور جہاد کے عقیدے کو سیاسی مقاصد کےلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ہمیں حیرت ہے کہ مذہبی جماعتوں کو اپنی قوت کا اندازہ ہی نہیں یہ قوت فوج اور ریاست کی مجبوری ہے، پاکستان ترکی نہیں ہے اس کے پڑوس میں بھارت ہے اس کے پڑوس میں افغانستان اور ایران ہے ان تین ملکوں سے پاکستان کے تعلقات ہمیشہ خراب رہے ہیں، ان تین ملکوں کی موجودگی میں فوج کا کوئی جنرل کمال اتاترک نہیں بن سکتا، یہ پاکستان ہے ترکی نہیں ہے علماء کو اپنی قوت کا خود بھی اندازہ نہیں ایک کتاب پڑھیں Tinder Box __
٭ آج کل اخبارات میں خبریں آ رہی ہیں ریاست سول ایوی ایشن اتھارٹی، شپ یارڈ وغیرہ کو Outsource کر رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام ادارے یا ان اداروں کے جو حصے Outsource ہوں گے اس کے مالک چین، یو اے ای، سعودی عرب، روس ہوں گے پاکستان نہیں، دوسرے معنوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پہلے برطانیہ کی، پھر امریکہ کی، پھر یورپ کی، آج کل چین اور روس کی استعماری طاقتوں کی غلامی میں مبتلا ہیں اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے سعودی عرب، یو اے ای اور دوسرے ملکوں کا نام بھی آ رہا ہے، پاکستان ستر سال تک اپنے منفرد جغرافیائی خطے کی وجہ سے عالمی طاقتوں کےلئے ایک اہم مہرہ ثابت ہوا لہذا ستر سال تک پاکستان اپنے جغرافیہ سے معاش کماتا رہا لیکن اب وہ وقت باقی نہیں رہا کمیونزم کا خطرہ ختم ہوگیا امریکہ خطے میں نئی جنگ نہیں چاہتا سیٹو، سینٹو کا کردار بھی ختم ہوگیا دنیا پر مغرب اور امریکہ کی کامل حاکمیت قائم ہے خطے میں نئی جنگ کے امکانات نہیں لہذا پاکستان اب اپنی محنت حکمت سے تو معاش کما سکتا ہے اپنے جغرافیہ سے نہیں مذہبی سیاست کا تو ان موضوعات سے کوئی تعلق ہی نہیں وہ عالمی، علاقائی مسائل سے بھی لاتعلق ہیں ان کی سیاست پاکستانی ریاست کے تابع ہے مثلاً سعودی عرب اور مسئلہ کشمیر سعودی عرب میں اسلام سے کیا کیا انحراف ہو رہا ہے پوری دنیا کو معلوم ہے ایک جدید اسلام تخلیق کیا جا رہا ہے MBS کا فرمان ہے کہ میں سعودی عرب کو یورپ بنا دوں گا کسی سعودی کو یورپ جانے کی ضرورت نہیں رہے گی حیرت ہے کہ اس پر موحدین کی کسی جماعت کی طرف سے ایک لفظ بھی تنقید کا نہیں آیا، قرآن حدیث کے مطالب تبدیل کئے جا رہے ہیں لیکن عالم اسلام میں سناٹا ہے، پاکستان کے تمام مکاتب فکر کی دینی سیاسی جماعتیں سعودی عرب کی دینی، ملی مسئلے سے بالکل لاتعلق ہیں کیونکہ ریاست بھی لا تعلق ہے اور وہاں سے ہمیں معاشی، مالی، مادی امداد بھی مل رہی ہے قومی مفاد غالب ہے یہی حال چین کا ہے چین میں دنیا کی سب سے بڑی جیل بنائی گئی ہے جس میں دس لاکھ مسلمان قید ہیں لیکن پاکستانی ریاست کو جس طرح سعودی عرب کی تبدیلیاں نظر نہیں آ رہیں اسی طرح چینی ریاست کا ظلم وتشدد نظر نہیں آ رہا ہے پاکستان کی مذہبی اور مذہبی سیاسی جماعتیں جو کشمیر کے مسئلے پر مسلسل جلسے، جلوس، بیانات کی سیاست کرتے ہیں چین کے مسئلے پر بھی خاموش ہیں کسی مذہبی سیاسی جماعت نے آج تک چین کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا کوئی جلوس نہیں نکالا اسلامی جمعیت طلباء یا کسی مذہبی طلباءتنظیم نے پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں چین کے خلاف احتجاجی جلوس نہیں نکالے کیونکہ چین سے CPEC معاہدہ ہے مالی مادی معاشی فائدے ہیں ہم اپنے ملکی علاقائی قومی مفاد کو دیکھیں یا اسلامی مفاد کو دیکھیں؟ PDM کے مولانا فضل الرحمان تو فرماتے ہیں کہ CPEC تو ہم نے شروع کیا ظاہر ہے چین کی مخالفت میں بیان کیسے آ سکتا ہے قومی، ریاستی مفاد اخلاقیات سے کس قدر عاری اور کس قدر سنگدل ہوتا ہے اس کی مثال نہیں ہے UNO میں چین کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی قرارداد آئی تو پاکستان سمیت دنیا کے ۷۳ اسلامی ملکوں نے بیان دیا کہ چین پر امریکہ کا الزام غلط ہے وہاں مسلمان چین و سکون سے ہیں ان کے بنیادی حقوق پامال نہیں ہو رہے قومی، علاقائی، مقامی مفاداتی سیاست اسلامی سیاست امت اور ملت کو کس طرح تہس نہس کرتی ہے؟ __
٭ مغرب کی جدید سائنسی ترقی میں فوج، فوج کے بجٹ کا بھی حصہ ہے رابرٹ اوپن ہائمر Oppenheimer Robert کے Manhattan Project کےلئے امریکی حکومت نے اربوں روپے دئیے ایٹم بم بنا 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر پھینکا گیا بم مغرب یورپ گوری چمڑی والے مہذب ملک جرمنی پر نہیں جاپان پر پھینکا گیا پیلے رنگ والوں پر، یہ بھی مغرب کا تعصب تھا اور مغرب کو جوہری خطرے سے بچانا بھی تھا مین ہٹن پراجیکٹ کے بعد مغرب میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی اصطلاح کو جانا گیا آئزن ہاور نے 1961 کی سالانہ صدارتی تقریر میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی اصطلاح استعمال کی تو یہ اصطلاح عام ہوگئی اب دنیا کی ہر قوم کے پاس ایسے کمپلیکس ہیں وہ کیا کر رہے ہیں یہ صرف ریاست کو پتہ ہے ان کے بجٹ بھی ریاست ہی جانتی ہے سب خفیہ ہوتے ہیں امریکہ کے وفاقی بجٹ کے پچاس فیصد صوابدیدی فنڈ پینٹاگون استعمال کرتی ہے :
The pentagon and the US war machinery now uses up over half of the federal discrediting budget. [New York Times 2-7-23]
وجے مہتا کی کتاب Economics Of Mass Killing اس موضوع پر عمدہ کتاب ہے، انڈسٹریل کمپلیکس کس طرح کام کرتے ہیں اس کی تفصیل دو کتابوں میں ملتی ہے __
(1) Ayesha Siddiqa, Military Inc
(2) Tan Tai Yong, The Garrison State
ہمیں حیرت ہے کہ ہماری کسی مذہبی سیاسی جماعت نے کبھی ان مباحث کو اپنے اندرونی حلقوں میں بھی بحث کا موضوع نہیں بنایا ان مباحث کے بغیر وہ ایک قومی ریاست کی قیادت حاصل کر کے عالمی سیاست سے اپنا قومی حصہ کیسے وصول کر سکتی ہیں امریکہ کی کابینہ میں دو وزیر CIA سے لئے جاتے ہیں جو کابینہ کو خفیہ کاروائیوں کے بارے میں بتاتے ہیں چین کے قومی سلامتی کے ۲۴ اراکین میں سے ۵ کا تعلق فوج سے ہوتا ہے فوج آپ پر کس طرح راج کرتی ہے یہ تو آپ کے علم میں ہی نہیں __
٭ اس وقت پاکستان افغانستان بھارت کے جو معاملات ہیں ہم ان سے بھی واقف نہیں پاکستان افغانستان میں ایسے معدنی ذخائر اتنی بڑی تعداد میں دستیاب ہوئے ہیں کہ دنیا حیران ہے تیل کے ذخائر نکل آئے ہیں اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2027 تک پاکستان باہر سے تیل کی خریداری بند کر دے گا، بھارت کی جانب سے کسی جارحیت کے امکان کا خطرہ بھی موجود ہے کیونکہ CPEC پر کام ہو رہا ہے باجوہ کے زمانے میں کام کیوں بند کیا گیا یہ اب راز نہیں ہے سب کو پتہ ہے گوادر میں آئیل ریفائنری کام شروع کرے گی تو پاکستان تیل میں خود کفیل ہو سکتا ہے، ماہرین جو اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ تیل کی قیمت کم ہو کر ستر اسی روپے تک آ سکتی ہے لیکن اس صورتحال کا تعلق صفائی سے ہے شبر زیدی نے صاف صاف کہہ دیا کہ پاکستان کو مافیاز چلا رہے ہیں، انہوں نے مافیاز کی فہرست میں فوج کو بھی شامل کیا اور جنرل باجوہ کا براہِ راست نام لیا وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم بھی مافیاز کے سامنے بے بس ہے ملک کے مقتدر حلقے فیصلہ کر رہے ہیں کہ مافیاز کا خاتمہ کر دیا جائے لیکن خاتمے کا یہ کام بہت سخت مشکل محنت طلب اور ہے یہ کام مافیا میں سے ہی کوئی کرے گا جو فیصلہ کرے گا کہ ہم مافیا نہیں ہیں نہ اپنے اندر مافیا بننے دیں گے نہ اپنے کسی آدمی کو معاف کریں گے ایک بار مافیاؤں کو ختم کرنے کا فیصلہ جو کہ بہت مشکل فیصلہ ہے ہو جائے تو ملک کی مالی، معاشی، مادی صورتحال تو شاید تبدیل ہو جائے لیکن اس کی اخلاقی روحانی تبدیلی کا کوئی مشن، کوئی تصویر، کوئی خیال کسی ذہن، کسی گوشے اور کسی مافیا کے ذہن میں دور دور تک نہیں ہے کیونکہ ہمارا اصل مقصد منزل ترقی یافتہ تعلیم یافتہ پاکستان ہے ہدایت یافتہ پاکستان نہیں جب مقصد ترقی مادی ترقی ہے تو اسی میں ترقی ہوگی جب ہدایت، اخلاقیات، روحانیت ہمارا مقصد ہدف منزل نہیں بلکہ ہر فرد کا ذاتی مسئلہ ہے تو جان لاک کے الفاظ میں ہم یہی کہیں گے کہ مجسٹریٹ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو کھینچ تان کر خدا کی طرف جنت کی طرف بلائے یہ لوگوں کی آزادانہ مرضی ہے وہ آزاد ہیں وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کدھر جانا چاہتے ہیں جہنم کی طرف یا جنت کی طرف __