عالم اسلام میں اس وقت ترکی پر تمام اسلامی تحریکوں کی نظریں ہیں ترکی کا ذکر ہے، اس سے تعلقات ہیں، ترکی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے، ترکی ماڈل کو سنگین غلط فہمی کے سبب حقیقی اسلامی حکومت کا ماڈل سمجھا جا رہا ہے، ترکی کے آخری سو سال میں ترکی جمہوریت اور مغربیت کو اختیار کرچکا تھا، نام خلافت کا تھا اصلاً دولت جمہوریہ تھا، اردگان جس سلطنت عثمانیہ کی بات کرتے ہیں وہ آخری زمانے کے تین جدید سلاطین کی سلطنت ہے جو پتلون کوٹ پہنتے تھے، جنہوں نے فرانس سے فوج کےلئے موسیقار بلوائے تھے اور فوج کا لباس تبدیل کر نے کے ساتھ ترکی امارت کو جدید ریاست میں تبدیل کر رہے تھے، یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کےلئے اردگان کی کوششیں سامنے ہیں، خلافت دار الحرب کی رکنیت کےلئے بے چین کیوں تھی؟ صرف اس لئے کہ ترکی والوں کے مزے ہوتے وہ یورپ میں ہر قسم کی آمد ورفت مفت میں رکھ سکتے تھے، کیا دار الاسلام، دار الحرب میں تحلیل ہو سکتا ہے؟ طالبان سے بحیثیت مجموعی اسلامی تحریکیں ،سیاسی، مذہبی، جماعتیں لا تعلق لا پرواہیں ان کا ماڈل ترکی کے مقابلے میں کسی کو پسند نہیں آرہا ہے کیونکہ ابھی تک یہ خالص اسلامی ماڈل ہے، عورتوں کے مسئلے پر طالبان ابھی تک شرعی موقف پر قائم ہیں جبکہ OIC اور جامعہ ازہر کے علماء کے گروہ طالبان کو قائل کرنے کےلئے آئے تھے کہ وہ مغرب کے مطالبات کو منظور کریں، عورتوں کی تعلیم بحال کریں، اسلام میں تعلیم کی بڑی اہمیت ہے، افغانی علماء نے جامعہ ازہر کے علماء کو کتاب و سنت، اسلامی تاریخ اور اسلاف کے عمل سے ثابت کر دیا کہ عورت کو جدید تعلیم نہیں دی جاسکتی اور وہ قائل ہوگئے، دینی علمیت کی حاکمیت قائم ہوگئی، او آئی سی اور ازہر کے علماء سے اگر مسلمان عورتیں یہ سوال کریں کہ اسلام میں تعلیم کی بہت اہمیت ہے تو عورتوں کے تعلیمی ادارے، اسلامی تاریخ میں کہاں تھے؟ کب تھے؟ اور کیوں نہیں تھے؟ عورتوں کو پندرہ سو سال تک تعلیم سے کیوں محروم رکھا گیا؟ اس ظلم کا ذمہ دار کون ہے؟ تو بے چارے شرما کر رہ جائیں گے، انہیں اپنی تاریخ پر شرم آئے گی حالانکہ ہماری تاریخ میں عورت کیا مردوں کےلئے بھی اسکول، کالج، یونیورسٹی کی تعلیم کا کوئی نظام اس طرح موجود نہیں تھا جس طرح مغرب نے ایجاد کیا ہے، روایتی تہذیبوں میں تعلیم، تربیت، علوم، فنون، ہنر مندی، کاریگری، فنکاری، مہارتوں کے طریقے دوسرے تھے وہ مغرب جیسے نہیں تھے کیونکہ ان تہذیبوں کی اقدار، روایات، ایمانیات، مابعد الطبیعات مغرب سے بالکل مختلف تھی، جدید تعلیم ایک صنعتی معاشرے کی ضرورت ہے جو معاشرے صنعتی نہیں ہوتے، وہاں اس تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی، او آئی سی اور ازہر کے علماء کا وہی مطالبہ تھا جو مغرب کا تھا کہ عورت مرد کو مساوی تعلیم اور نوکری کے مساوی مواقع مہیا کرو، ازہر کے علماء اور اسلامی تحریکوں کے رویے بتاتے ہیں کہ وہ عورت کے معاملے میں مغرب کی کسی نہ کسی حد تک تقلید کے شرعی طور پر قائل ہو چکے ہیں حالانکہ اس تقلید کے جو دلائل بیان کئے جا رہے ہیں وہ سادہ لو حی اور اسلامی تاریخ سے ناواقفیت کا شاہکار ہیں، عورت اور مرد کی تعلیم الگ الگ ہے خاندان عورت چلاتی ہے لہذاوہ نوکری نہیں کر سکتی، یہ بنیادی مقدمات ہیں جس میں امت کا اجماع ہے، استثنائی صورتحال ہر جگہ رہتی ہے وہ رہے گی __
پاکستان کی اسلامی تحریکوں، مذہبی، سیاسی جماعتوں کو ابھی تک پاکستان سمجھ میں ہی نہیں آیا وہ کبھی پاکستان کو مدینہ ثانی سمجھتے ہیں کبھی الہی ریاست، کبھی سیکولر ریاست، مغرب کے بارے میں بھی وہ بہت سی خوش فہمیوں کا شکار ہیں اسلامی مملکت، سیکولر ازم، پاکستان کی اصل حقیقت جاننے کےلئے وہ عزیز احمد کی ایک کتاب ’’برصغیر میں اسلامی جدیدیت‘‘کے آخری تین ابواب کامطالعہ کریں، کتاب انگریزی میں بھی ہے: Islamic Modernism in Indo Pakistan
اس کے ساتھ جسٹس منیر انکوائیری کمیشن رپورٹ کے آخری تین ابواب پڑھ لیں یا ان کا خلاصہ عزیز احمد کی کتاب میں پڑھ لیں، اسلام، مغرب اور پاکستان کو سمجھنے کا سب سے آسان ترین طریقہ ہے جو ہم نے آپ کو بتا دیا، وہ تحریکیں جو پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کی دعوے دار ہیں وہ دعوے اور وعدے کرنے کے بجائے، خواب دیکھنے اور دکھانے کے بجائے تین کتابوں کا مطالعہ کر لیں جو انقلاب سے متعلق ہیں ان کتابوں کو پڑھ کر ہم نئی حکمت عملی بنا سکتے ہیں اور گزشتہ دو سو سال میں برپا ہونے والے انقلاب روس، چین، امریکہ، فرانس اور ایران کے بارے میں بہت سی نئی باتیں جان سکتے ہیں، فرانسسی مفکر فوکو نے ایران جا کر انقلاب ایران کا مشاہدہ کیا اور اس موضوع پر چند مضامین بھی لکھے ان کا مطالعہ بھی مفید رہے گا، PAKISTAN A HARD COUNTRY (A.LIEVEN) کے آخری ابواب
The Pakistani Taliban
Defeating the Taliban
ٹی ٹی پی (TTP) کے بارے میں کچھ پڑھتے ہوئے افغانستان کے طالبان سے ان کا تقابلی مطالعہ بھی کرتے جائیے آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ TTP کیوں کامیاب نہیں ہو سکتی اور طالبان کیوں کامیاب ہوگئے؟ طالبان صرف ایک ملک کی فوج کو شکست نہیں دے سکے افغانی طالبان نے دنیا کے تمام ممالک کی فوجوں، سائنس ٹیکنالوجی، اسلحہ، طاقت، شوکت، حشمت کو عبرت ناک شکست دی اور منہ کے بل گرا دیا، صدر بش نے افغانستان پر حملے سے پہلے ہی کہا تھا کہ طالبان سےان کے مذاکرات نہیں ہوں گے، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی اور ہم افغانستان کے ہر تاریک غار میں جمہوریت کی شمع روشن کریں گے مگر اسی امریکہ اور اس کے حامی دنیا کے تمام ملکوں نے بے شرمی سے شکست مانی دہشت گرد کا خطاب واپس لے کر انہیں پر امن طالبان کہا اور ذلیل ہوکر افغانستان سے باہر نکل گئے، جاتے جاتے جمہوریت کے چراغ بھی ساتھ لے گئے جو ہماری اسلامی تحریکوں کو بہت پسند ہے جمہوریت کو ایک آلے، اوزار، ذریعے، ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا الگ بات ہے اور جمہوریت پرایمان لانا اسے خلافت راشدہ سے ثابت کرنا دوسرا ایمان ہے، جمہوریت کو صرف ایک حکمت عملی کے طور پر ضرور اختیار کیا جا سکتا ہے، آخر ہٹلر، اسٹالن، لنین نے بھی جمہوریت کو استعمال کر کے پھینک دیا، انقلاب پر دو اہم کتابوں کے نام بھی لکھے جا رہے ہیں جن کا مطالعہ مفید رہے گا:
Theda Scokpal: states and social revolution a comparative analysis of France, Russian and china
Theda Scokpal: social revolutions in the modern world
اکتوبر 2022 سے لے کر اکتوبر 2023 تک عمران خان کے بعد جو منظر نامہ سامنے آیا اس میں PDM تمام سیاسی جماعتوں کو اقتدار دیا گیا صرف مذہبی جماعتیں اقتدار سے محروم رہیں JUI کو البتہ اقتدار میں شامل کیا گیا ایک سال کا یہ موقع مذہبی سیاست کے ابھرنے اور نکھرنے کیلئے بہترین موقع تھا لیکن نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر مذہبی جماعتوں نے اکٹھے ہو کر یا تنہا رہ کر بھی کوئی کارکردگی نہیں دکھائی معلوم ہوتا ہے کہ فوج نے بھی ہدایت کی ہے کہ بس کام سے کام رکھو بجلی، گیس، پیٹرول کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کیا گیا کہ لوگوں کی ٹوٹی ہوئی کمر مزید بار بار ٹوٹتی رہی، مذہبی جماعتوں نے کوئی منظم مؤثر احتجاج تک نہیں کیا، جماعت اسلامی نے مہنگائی کے خلاف 2 ستمبر 2023 کو ہڑتال کی اپیل کی دن ہفتہ تھا ہفتے کو ملک بھر میں عام تعطیل ہوتی ہے تعطیل کے دن میں ہڑتال کی اپیل کا مطلب اپنا اندرونی خوف تھا معلوم نہیں ہڑتال کامیاب ہو یا نہ ہو، لوگ بے چین ہیں قیادت تلاش کر رہے ہیں قیادت مل نہیں رہی ان حالات میں ویسے بھی مذہبی جماعتوں کو بھرپور سیاست کرنے کے باوجود اقتدار میں آنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے جس ملک کی حالت یہ ہو کہ سالانہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہو (جنگ 7 ستمبر 2023) بجلی ترسیل تقسیم کے نقصانات 520 ارب روپے ہوں (جنگ کراچی 28 اگست 2023) __
90 کی دہائی میں PPI سے خوفناک معاہدے کئے گئے، یہ دعویٰ ہے وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا (جنگ کراچی یکم ستمبر 2023) ان حالات میں مذہبی جماعتیں اقتدار لے کر کیا کرسکتی ہیں؟ سب سے زیادہ بجلی استری میں استعمال ہوتی ہے کیا استری کے بغیر کپڑے نہیں پہنے جا سکتے؟ سادہ سا سوال ہے سادہ لوح عوام کےلئے حالات یہی رہے تو لوگ استری نہیں کر سکیں گے کہ سب سے زیادہ بجلی استری ہی کھاتی ہے، چھ لاکھ فوج کی روزانہ استری پر قوم کے کتنے روپے خرچ ہوتے ہیں یہ بھی ایک سوال ہے؟ کیا ہم استری کی ثقافت عارضی طور پر ترک کرسکتے ہیں اگر ترک کر دیں تو کیا حرج ہے؟ __
1977 کی بھٹو ہٹاؤ تحریک کو اچانک تحریک نظام مصطفیٰ کا نام دے دیا گیا بہت بڑا کھیل تھا جس میں فوج شریک تھی تحریک کو اس نام نے بہت بڑی قوت مہیا کی PNA نے اعلان کیا کہ وہ تمام اشیاء کی قیمتوں کو 1970 کی قیمت تک لے آئیں گے یہ صرف نعرہ تھا کوئی حقیقت نہیں تھی سوال یہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں ملک کے موجودہ حالات میں اشیاء کی قیمت کم کرنے کا کوئی پروگرام رکھتی ہیں؟ کیا ان کی کوئی تیاری ہے؟ بہت سی مذہبی جماعتوں کو تو ملک کے معاشی حالات کے بارے میں کچھ پتہ نہیں وہ صرف نعرہ بازی میں مصروف ہیں، معاشی حقائق بہت تلخ ہیں غریب کی معیشت کو درست کرنے کےلئے انقلابی جماعت اور انقلابی شخصیت کی ضرورت ہے گورنر ہاؤس کے سامنے پر امن دھرنوں کا کچھ حاصل نہیں جمہوری عمل اور عوام پر ریاست کا تشدد اس پرامن جمہوری جدوجہد سے بہت مضبوط ہوتا ہے ساری زندگی آپ پر امن جلوس نکالتے رہیں ریاست آپ سے کبھی ناراض نہ ہوگی، جمہوری ریاست میں تنقید اور احتجاج جلسے جلوس کی آزادی اسی لئے ہوتی ہے کہ ہر شخص خوش ہوتا رہے کہ وہ کچھ کر رہا ہے یعنی کیتلی سے ڈھکن ہٹا دیا جاتا ہے کہ پانی ابل کر باہر نہ آئے اندر ہی رہے __
28 جولائی 2023 کو FBR کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے جو انٹرویو دیا وہ مذہبی جماعتوں کےلئے چشم کشا ہونا چاہیے انٹرویو نے بتلا دیا کہ ملک کو مافیاز چلا رہے ہیں، انہوں نے فوج کو بھی مافیا قرار دیا تو کیا ان حالات میں انقلابی قیادت کے بغیر تبدیلی آسکتی ہے؟ یوٹیوبرز کو کروڑوں روپے دے کر انتخابی مہم چلانے سے کیا اقتدار مل سکتا ہے؟ مل جائے تو کیا چل سکتا ہے؟ شبر زیدی نے کہا PTI حکومت چلتی رہتی تو معاشی تباہی ہوتی تمباکو مافیا، ملز اور زمینداروں پر ہاتھ ڈالا تو PTI کی قیادت بچانے آگئی، حکومتوں کو مافیاز چلاتے ہیں عمران خان نے کہا تم جو کرسکتے ہو کرو میں فضل الرحمان کے دھرنے سے خوفزدہ ہوں، میں اس بات پر قائل ہوچکا ہوں کہ مافیاز حکومتوں کو چلاتے ہیں ہماری کوئی حکومت اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ شٹر پاور سے لڑ سکے بس شٹر ڈاؤن شروع ہوجاتا ہے (جنگ کراچی 9 جولائی 2023) مذہبی سیاست اس انٹرویو کو غور سے پڑھے اور پھر اپنی طاقت، قوت، حکمت، صلاحیت کا جائزہ لے کیا وہ مافیاز سے لڑ سکتی ہے ان کو سیدھا کرسکتی ہے؟ شبر زیدی بتاتے ہیں کوئی سیاسی حکومت زرعی انکم ٹیکس میں دلچسپی نہیں رکھتی زمینداروں کو نوٹس بھیجا تو شاہ محمود قریشی PTI کے نائب صدر وزیر خارجہ آگئے اگر آپ شٹر پاورسے لڑنے پر تیار نہیں تو ٹیکس نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا ریٹیلر مافیا ہیں یہ بازار بند کر دیتے ہیں، ریٹیلرز اور آڑھتی کا ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے، کراچی کے ٹریڈرز کہہ رہے تھے ہم ٹیکس نہیں دیں گے، 2022 میں تنخواہ دار طبقے نے 264 ارب Tax دیا ایکسپورٹرز اور ریٹیلرز نے صرف نوے ارب کا ٹیکس دیا جو تنخواہ دار طبقے سے 1175 ارب روپے کم ہے، ریٹیلر سیکٹر کا ملکی معیشت میں 19 فیصد حصہ ہے اور یہ صرف کل ٹیکس کا.4 0 فیصد ٹیکس دیتے ہیں، زراعت کا معیشت میں حصہ 22 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ یہ صرف 4 ارب ٹیکس دیتے ہیں، آڑھتی اور ریٹیلرزملکر چالیس فیصد معیشت کا حصہ ہیں اور یہ چالیس فیصد حصہ Tax نہیں دیتا یا بہت کم شٹرپاور سے لڑے بغیر معیشت Tax ٹھیک نہیں ہوسکتے، کراچی کا لیاقت بازار جتنا ٹیکس دیتا ہے اس کا Tax پورے لاہور کے ٹیکس سے زیادہ ہے، آپ لاہور سے آگے جاتے جائیں دوکاندار کم سے کم ٹیکس دیں گے بلکہ نہیں دیں گے، پشاور دس روپے لاہور بیس اور کراچی 50 ٹیکس دیتا ہے یہ ایک مثال ہے جو میں پیش کر رہا ہوں اتنا فرق ہے ساؤتھ اور نارتھ میں کوئی مٹھائی والا، ریسٹورنٹ والا، گوشت والا، دودھ والا ٹیکس نہیں (کیا مذہبی سیاسی جماعتیں ان سے نمٹ سکتی ہیں؟) سندھ میں تو ایگری کلچر انکم ٹیکس کا ڈپارٹمنٹ ہی نہیں ہے تو Tax کون جمع کرے گا؟ پنجاب میں زرعی انکم ٹیکس کے ڈپارٹمنٹ کا یہی حال ہے کچھ نہیں ہے بورڈ آف ریوینیو والے زرعی ٹیکس جمع کرتے ہیں انہیں الف ب بھی نہیں آتی، نصر اللہ دریشک نے کہا نوے سال کے سیاستدان نے مجھ سے کہا بیٹا! یہ تیرے بس کا کام نہیں ہے اس کو چھوڑ دے اس کو رہنے دے ہم ساؤتھ پنجاب کے MNA ہیں ہمارے بغیر کوئی گورنمنٹ نہیں چل سکتی بیٹا! تو ابھی ینگ ہے بچہ ہے تو اس کو چھوڑ دے تیرے بس کا کام نہیں، میں نے پراپرٹی کی value پر ٹیکس کو دس سے بیس کردیا DHA کے سارے آفس خالی کرگئے سارا دھندہ بند ہوگیا جنرل باجوہ نے مجھے بلایا سر! یہ کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا سر! میں نے یہ کیا ہے کہ میں نے اس Tax کو سو فیصد کر دیا ہے تو کہنے لگے یار! مجھے بار بار DHA والے فون کرتے ہیں کہ شبر صاحب نے کوئی عجیب سی چیز کر دی ہے دن میں ایک سودا بھی نہیں ہوا ورنہ روزانہ دو سو سودے آتے تھے ساری دوکانیں بند ہوگئیں میں نے کہا سر پھر کیا کریں یار اس کو تھوڑا آگے پیچھے کردو ہمارا تو دیکھیں سارے لوگ DHA کے پلاٹوں میں خریدتے ہیں بیچتے ہیں تو اب کیا کرنا ہے؟ میں نے اسمگلنگ میں کوئٹہ پر ہاتھ ڈالا تو میرے پاس سدرن کمانڈ کے کمانڈر آئے انہوں نے کہا اس کو ذرا سلو کریں کیونکہ سیاسی افراتفری ہوجاتی ہے، آپ اسمگلنگ پر زیادہ روکنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس علاقے میں لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے، Try to understand these thinks (جنگ کراچی، 29 جولائی 2023) سدرن کمانڈ کی بات اہم ہے سو سال سے کوئٹہ سے لے کر کراچی تک اسمگلنگ کا کام ہوتا رہا ہے اور لاکھوں لوگوں کا کاروبار اس سے وابستہ ہوچکا اسے متبادل روزگار دیے بغیر ختم کر دیں تو لاکھوں لوگ بھوکے مریں گے مسئلہ ہے لیکن اس کا سادہ حل یہ نہیں ہے کہ بند کردو Rule of the Law مسئلے کا حل نہیں بہت سےسخت فیصلے کرنے ہوں گے، دین کو ایک زندہ متحرک قوت بنانا ہوگا ایک مذہبی انسان تیار کرنا ہوگا یہ کام پاکستانی ریاست نہیں کرسکی نہ کرے گی، نہ اس کا یہ مقصد ہے ریاست ساورن ہوتی ہے خدا اور شریعت بھی اس کے تابع ہوتے ہیں لہٰذا پاکستان میں اسلامی اقتدار کیلئے انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کیا ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس بارے میں کچھ کام کیا ہے؟ مذہبی سیاست کا عجیب معاملہ ہے وہ فوج کی تاریخی حلیف بھی ہے اور فطری حلیف بھی ہے اسی لیے پاکستان کو ایک اسلامی ریاست تسلیم کرنے کے باوجود مذہبی جماعتوں نے زکٰوۃ کو بیت المال ریاست کا حق قرار نہیں دیا، زکٰوۃ مذہبی جماعتیں ہی وصول کرتی ہیں ریاست نہیں یہی نکتہ بتاتا ہے کہ مذہبی قوتیں ریاست پاکستان کو مشکوک بھی سمجھتی ہیں مگر اسلام کا محافظ بھی کہتی ہیں فوج کتنی ہی طاقتور ہو وہ اسلام اور اسلامی قوتوں سے زیادہ طاقتور نہیں ہوسکتی، ایوب خان نے جماعت اسلامی کو ختم کرنے کی پوری کوشش کی پرویزی اسلام کو ریاستی سرپرستی ملی لیکن وہ جماعت اسلامی کو ختم نہ کرسکے فوج طاقتور ترین عنصر ہے لیکن وہ خدا نہیں ہے، پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کوبرطرف کردیا مگر بعد میں وہ بڑی شان و شوکت سے بحال ہوئے فوج ان کی بحالی کی راہ میں حائل نہ ہوسکی، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو جنرل فیض حمید اور باجوہ نے سپریم کورٹ سے برطرف کرانے کی پوری کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی فوج نے الطاف حسین کو زندہ کیا اسے ہیرو بنایا عمران خان کو زندگی دی اسے ملک کا سب سے مقبول لیڈر بنا دیا مگر فوج دونوں لیڈروں کو ختم نہیں کرسکی، فوج نے پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی ناکام ہوئی، پیپلز پارٹی کو فوج سیاست اور ریاست سے نہیں نکال سکی لہٰذا مذہبی سیاست میں فوج سے خوف کے جو رویے دیکھے جاتے ہیں وہ بے جا ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں، فیض آباد دھرنا پر قاضی عیسیٰ فائز نے فیصلہ دیا کہ فوج اس معاملے میں کیسے شریک ہے؟ یہ سیاسی معاملہ ہے جو حکومت کو طے کرنا چاہیے، جنرل فیض حمید TLP سے تحریری معاہدہ کس بنیاد پر کر رہے ہیں انہیں ضمانت کس بنیاد پر دے رہے ہیں؟ سیاست میں ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف ریاست کاروائی کرے لیکن کاروائی نہ ہوئی ان کے فیصلے کے خلاف MQM PTI الیکشن کمیشن، ریاستی خفیہ ادارے، صدرِ مملکت سب نے اپنا اپنا کام کیا ریفرنس دائر ہوا نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئیں اب اتفاقاً فائز عیسیٰ خود چیف جسٹس ہیں اور مقدمہ چلنے کےلئے آیا تو مقدمہ دائر کرنے والے مقدمہ واپس لینے کی درخواستیں دائر کر رہے ہیں، چیف جسٹس پوچھ رہے ہیں کس کا ڈر ہے کس کے کہنے پر مقدمہ دائر کیا تھا اب پیچھے کیوں ہٹ رہے ہو جو فیصلہ تھا وہ درست تھا عمران خان کے معاملے نے بتا دیا کہ فوج کو سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہئے تھا عمران خان نے اقتدار سے نکلنے کے بعد فوج کے خلاف جو زہر اُگلا اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا ایک سال تک فوج کی عزت افزائی ہوتی رہی فوج کچھ نہ کر سکی اس زمین پر صرف فوج نہیں ہے، اللہ کی حکمرانی قائم ہے ہمیں اس حکمرانی کا خوف کرنا چاہیے نہ کہ فوج سے خوفزدہ ہو کر اپنی پالیسیاں بنانا، فوج نے کورونا میں کہہ دیا مسجدیں بند تو آپ نے مسجدیں بند کر لیں، آپ کہتے ہم یہ نہیں کر سکتے یہ اجماعِ اُمت کے خلاف ہے، یہ اجماع صحابہ کے خلاف ہے صحابہ کا وبا میں اجماع منعقد ہو چکا کہ Social Distancing نہیں ہوگی، مساجد کھلی رہیں گی، طاعون کا مریض بھی مسجد آسکتا ہے، علماء ریاست سے صرف یہ کہتے ہیں کہ ریاست خود مساجد بند کر دے عوام متبادل نظام تخلیق کر لیں گے ریاست کا اصل چہرہ بےنقاب ہو جاتا آپ نے معاہدہ کر کے اس چہرے کو چھپا دیا، عمران دورِ حکومت میں TLP کے خلاف لاہورمیں آپریشن ہوا رمضان کے مہینے میں اندازاً ۲۰ سے ۴۰ کارکن شہید ہوئے TLP نے اسلام آبادلانگ مارچ کا اعلان کیا قافلہ درمیان میں تھا حکومت اور TLP میں مذاکرات کا دروازہ بند تھا مسئلہ وسطی پنجاب تک پہنچ رہا تھا وہاں سے اکثریت سپاہی کے طور پر بھرتی ہوتے ہیں، جنرل باجوہ نے عقیل کریم ڈھیڈی کے گھر پر مفتی منیب الرحمٰن کو طلب کیا خفیہ معاہدہ ہوا، معاہدہ کے ضامن جنرل باجوہ تھے معاہدہ مفتی منیب اور جنرل باجوہ کے علم میں ہےعمران خان کو بھی نہیں بتایا گیا کہ معاہدہ میں کیا طے پایا، پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا معاہدہ تھا جس میں ریاست ، حکومت غائب تھی اصل حکمران باجوہ صاحب تھے ستر سال سے فوج ہی اصل حکم ران ہے۔ لیکن معاہدہ کا نتیجہ ،اثر، تتمہ یہ تھا کہ TLP کو حکم دیا گیا کہ اب صرف جمہوری سیاسی عمل میں حصہ لو اور لانگ مارچ دھرنوں سے دستبردار ہو جاؤ مذہبی سیاسی قوت اس قدر طاقت رکھتی ہے کہ آرمی چیف کو درمیان میں آنا پڑتا ہے سول حکومت کو مکھی کی طرح باہر نکال کر پھنک دیا گیا لیکن مذہبی طاقتوں کو اپنی قوتوں کا اندازہ ہی نہیں ہے _