Maarif

logo

مدیر: محمد اسلام

مدیر: محمد اسلام

تعارفِ مصنف:

محترم جناب سید خالد جامعی صاحب جامعہ کراچی میں شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں، جید محقق و صاحب اسلوب مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ مغربی فکر وفلسفہ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور مغربی تہذیب اور اس کے جملہ مظاہر پر ہزاروں صفحات کے ناقدانہ مضامین لکھ چکے ہیں اور اب تک اس پر خامہ فرسائی کر رہے ہیں، وہ صرف علماء, اسلامی تحریکوں اور دینی مدارس کے لیے لکھتے ہیں کیونکہ انہیں کے پاس وہ علم شاہ کلید موجود ہے جس سے مغرب کو ہم پڑھے بغیر بھی جان سکتے ہیں ، وہ خود کو علماء، اسلامی تحریکوں، راسخ العقیدہ مکاتبِ فکر، انقلابی، جہادی، عسکری، فکری، تبلیغی، دعوتی، اصلاحی، احیائ، اجتہادی تحریکوں کا خادم سمجھتے ہیں، یہ مضمون بھی ان کے زور قلم کا نتیجہ ہے، امید ہے یہ مضمون قارئین کے علم میں اضافے کا باعث ہوگا۔

سب سے پہلے اس طویل مضمون کے چند چیدہ چیدہ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں

٭ جناب حافظ نعیم الرحمن صاحب کی فتح شکست میں بدل دی گئی، اسلامی جماعتوں کےلئے سوچ کے نئے زاویے۔

٭ مولانا مودودی نے کہا ”جماعت اسلامی نے کبھی نہیں کہا کہ اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستے سے ہی آ سکتا ہے“

(جسارت فرائیڈے اسپیشل ۷ مارچ، ۲۰۱۴ء ص ۲۹)

٭ امیر جماعت اسلامی بنگلادیش پروفیسر غلام اعظم نے کہا ”ہمارے کارکنان یہ خیال کرتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے اسلامی انقلاب نہیں آ سکتا جبکہ جماعت اسلامی کی لیڈرشپ ایسا نہیں سمجھتی اس راستے پر جانے سے فوج کو فائدہ ہوگا“

(جسارت فرائیڈے اسپیشل ۱۳ اکتوبر ۲۰۱۴ء ص ۱۸)

٭ اگر جمہوری عمل میں شرکت انقلابی عمل ہے تو پاکستان کی تمام مذہبی، سیاسی، جماعتیں انقلابی ہیں۔

مذہبی سیاست کی جدو جہد کے حوالے سے چند اہم اشارات

٭ جماعت اسلامی بنگلا دیش کے امیر غلام اعظم خان نے کہا ”ہم ایک جہادی جماعت ہیں لیکن بنگلا دیش کا محل وقوع ایسا ہے کہ ہم کسی جگہ جہاد پر اپنے کارکنوں کو نہیں بھیج سکتے“

٭ منور حسن نے کہا ”سب سن لیں میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہوں ہمارے مسائل صرف جمہوریت اور انتخابات سے حل نہ ہوں گے، اس کےلئے ہمیں جہاد اور قتال کا کلچر عام کرنا پڑے گا“

(ڈاکٹر حسین احمد پراچہ کا کالم جنگ کراچی ۲۷ نومبر ۲۰۱۴ء)

بعد میں منور حسن صاحب نے اس بیان کی کچھ وضاحت فرمائی

٭ سراج الحق صاحب نے کہا ”ہمارے یہاں ایمان تقویٰ جہاد کے موٹو والی فوج ہے ایک اسلامی فوج ہے“ دوسرے معنوں میں فوج، اسلام اور پاکستان ایک دوسرے کے متبادل ہیں، فوج ہے تو اسلام بھی ہے اور پاکستان بھی ہے، دوسرے معنوں میں فوج اور اسلام متبادل اصطلاحات ہیں اور فوج ہی کی وجہ سے اسلام محفوظ ہے

٭ جماعت اسلامی دنیا بھر میں جہادی تحریکوں کی حامی تھی، اس کے ہزاروں کارکنان بوسنیا، کشمیر، افغانستان، چیچنیا جہاد کےلئے گئے اور شہید ہوئے لیکن ۲۰۱۴ء میں جماعت اسلامی نے اپنی پالیسی تبدیل کی اور سراج الحق نے کہا ”جماعت اسلامی اور عالمی اسلامی تحریکیں اعلان کرتی ہیں کہ عالم اسلامی میں تبدیلی کا عمل صرف پر امن طریقے سے انتخابات اور ووٹ کی پرچی سے ممکن ہے“۔

(جسارت ص ۷، ۲۵ نومبر،۲۰۱۴ء)

٭ منور حسن نے کہا ”لوگوں کے ووٹ دینے کے پیمانے الگ ہیں انتخابات بیچ دیئے جاتے ہیں، انجنئیرڈ ہوتے ہیں، معاشرہ ظالم ترین لوگوں کی گرفت میں ہے، برادری نسل پیسہ ہی سب کچھ ہے“

(جسارت نومبر ۲۰۱۴ء ص ۴)

٭ جمہوریت کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے اور اسے الحق، زندگی، مقصد، منزل، ہدف سمجھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے جمہوریت حکمتِ عملی ہو سکتی ہے حکمتِ آسمانی نہیں ہو سکتی

٭ کیا مذہبی دینی جماعتوں کےلئے انتخابی سیاست کے ساتھ ساتھ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو اس سوال پر غور کرنا چاہیے۔

٭ کیا جمہوری سیاست کو تجربات کی روشنی میں عارضی طور پر ترک کیا جا سکتا ہے؟

٭ انتخابی سیاست سے انحراف کا صرف ایک ہی مطلب کیوں سمجھا جاتا ہے یعنی عسکری جدو جہد یعنی دنیا میں جدوجہد کے صرف دو ہی راستے ہیں جمہوری عمل یا عسکری محاذ؟

٭ یہ نقطہ نظر کہ جدو جہد دو ہی طریقوں سے ممکن ہے اصول استقراء کا نتیجہ ہے اور منطق میں استقراء یقین کا فائدہ نہیں دیتا جدو جہد کے سینکڑوں طریقے ہیں۔

٭ اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں علماء نے مختلف طریقوں سے جدو جہد کو جاری رکھا حالات کے لحاظ سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہے اور اسلامی علمیت کو ہر سطح پر محفوظ اور ہر جگہ قائم بھی رکھا، کیا اس منہاج کو اختیار کیا جاسکتا ہے؟

٭ یہ تصور درست نہیں ہے کہ تبدیلی کا عمل اوپر سے آتا ہے تاریخی، روایتی، اسلامی تہذیب میں تبدیلی کا عمل نیچے سے اوپر جاتا ہے، تاتاریوں کو اسی طریقے سے شکست دی گئی، کیا حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی کوششیں جدو جہد کے نئے راستے متعین کرتی ہیں۔

٭ جمہوری عمل سے باہر نکلنے کا مطلب عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ اب عسکریت ہی آخری راستہ ہے حالانکہ یہ نتیجہ اخذ کرنا منطقی مغالطہ ہے، یہ نتیجہ اصول استقراء سے اخذ کیا گیا ہے اور استقراءکبھی یقین کا فائدہ نہیں دیتا، ایک اور مغالطہ ایسا ہی ہے کہ آپ جمہوریت کی مخالفت کریں تو آپ کو آمریت کا حامی سمجھا جاتا ہے جو غلط ہے ہو سکتا ہے آپ جمہوریت اور آمریت دونوں کے خلاف ہوں لیکن عصر حاضر کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا سوچنا ممکن نہیں۔

٭ مذہبی، دینی جماعتوں نے بعض مرتبہ انتخابی عمل کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا مگر یہ فیصلہ دینی جماعتوں کےلئے کوئی خوش خبری نہیں لا سکا، کیا کوئی اور راستہ بھی ہے؟

٭ بعض اسلامی تحریکیں سمجھتی ہیں کہ جدید ریاست اور اس کے اداروں اور نظام کو انقلاب کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا جس کیلئے قلیل المدت اور طویل المدت حکمت عملی کی ضرورت ہے، دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جدید ریاست ایک پرتشدد وجود ہے اس کے خاتمے کےلئے جوابی تشدد ضروری ہے ترکی کے نجم الدین اربکان سیاسی جمہوری جدو جہد سے بالکل مایوس ہو گئے تھے، اس کی وجہ یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس کا ان کے خلاف فیصلہ تھا، ویب سائٹ (Rafah Vs Turkey) پر یہ فیصلہ دیکھا جا سکتا ہے، کیا اسلامی جماعتوں نے کبھی یہ فیصلہ پڑھنے کی زحمت گوارا کی ہے؟ جمہوریت کا حقیقی چہرہ یہ فیصلہ بتاتا ہے، اس فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جمہوری انتخابات کے ذریعے منتخب ہو کر اسلام نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اسلام جمہوریت کے عقیدہ مساوات کو تسلیم نہیں کرتا وہ افراد میں فرق قائم کرتا ہے۔

٭ کیا عصر حاضر میں ریاست کے اندر کوئی دینی جماعت ایک متبادل قوت نہیں بن سکتی صوبہ سرحد (کے پی)کے مولانا عبد الرحیم پوپلزئی نے گزشتہ تئیس سال سے چاند کی رویت کے فیصلے پر اپنی رٹ ریاست کی رٹ کے مقابلے پر قائم کر رکھی ہے، پورے ملک میں عید مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق ہوتی ہے صوبہ سرحد (کے پی) میں عید مولانا پوپلزئی کے اعلان کے مطابق ہوتی ہے، پوپلزئی صاحب کو یہ مقام اور مرتبہ کیسے حاصل ہوا؟ کیا اسلامی قوتیں اس مثال کو اپنے لئے مشعلِ راہ نہیں سمجھتیں، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اراکین پاکستان کی ریاست سے ہمیشہ مطالبہ کرتے رہے کہ صوبہ سرحد (کے پی) میں ریاستی رٹ قائم کی جائے، پوپلزئی صاحب کی رٹ کا قوت سے خاتمہ کر دیا جائے لیکن ریاست کچھ نہیں کر سکی حیرت ہے کہ علماء پوپلزئی صاحب کی رٹ کا مفاہمانہ جائزہ لیتے اور اس سے روشنی حاصل کرتے وہ ان کی رٹ کے خاتمے میں مصروف رہے پوپلزئی صاحب کا ماڈل بے شمار مقامات پر آج بھی نہایت کامیابی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

٭ جنرل باجوہ نے اعلان کیا تھا کہ ۲۲ فروری ۲۰۲۲ء کے بعد فوج کا سیاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رہے گا لیکن عمران خان کی جماعت کا تتر بتر ہونا فوج کے بغیر ممکن نہیں، نعیم الرحمن صاحب کی شکست کا بھی یہی مطلب ہے کہ فوج آج بھی سیاست میں ملوث ہے، جماعت اسلامی نے عمران خان سے اس وقت حمایت حاصل کی جب PTI والے عمران خان کو چھوڑ کر جا چکے تھے، عمران کی حمایت ایک سیاسی عمل تھا، کراچی جیسے شہر میں عمران خان کو ایک سیاسی قوت کے طور پر کیسے برداشت کیا جا سکتا تھا لہذا حافظ صاحب کو تمام قوت کے باوجود سرنگوں کر دیا گیا۔

٭ جنرل باجوہ کے اعلان سے معلوم ہوگیا کہ پاکستان کی ستر سالہ سیاست فوج کی دخل اندازی کے ذریعے کام کر رہی ہے اس دخل اندازی کا نقطہ عروج معین قریشی کی بحیثیت وزیراعظم امریکہ سے درآمد (Import) تھی، ان کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں تھا، انہیں لایا گیا وہ وزیراعظم بنے IMF اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پلان قوم پر مسلط کیا اور تین ماہ بعد روانہ ہو گئے یہ تمام کام عسکری حلقوں کی نگرانی میں ہوا، اختیارو اقتدار کے تمام مراکز جب فوج کے پاس ہیں تو جمہوری جدو جہد کا کیا فائدہ؟ جب فوج ہی طے کرتی ہے کہ بھٹو کو لانا ہے بھٹو کو ہٹانا ہے، نواز شریف، عمران خان کو لانا اور ان کو نکالنا ہے تو اس عمل کو جمہوری عمل کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اور ایسے جمہوری عمل میں اسلامی جماعتوں کی شرکت کا کیا فائدہ ہے؟ اسلامی جماعتوں کی ستر سالہ جدو جہد بے فائدہ رہی اور آئندہ بھی اس جدوجہد کی کامیابی کے امکانات محدود ہیں۔

٭ ایک رائے یہ بھی ہے کہ PPP, PML, PTI, وغیرہ فوج کی حمایت سے اقتدار میں آ سکتے ہیں تو اسلامی جماعتیں فوج سے اقتدار حاصل کرنے کےلئے بات چیت کیوں نہیں کر سکتیں اگر اقتدار میں آنا ضروری ہے تو فوجی حمایت حاصل کرنے میں کیا حرج ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسی کامیابی کیا اسلامی جماعتوں کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے گی؟ فوج جب کسی کو اقتدار دیتی ہے تو اس کے ہاتھ میں مطالبات کی ایک طویل فہرست بھی تھما دیتی ہے کیا دینی جماعتیں یہ مطالبات مان لیں گئں

٭ مئیر کراچی کے الیکشن کے بارے میں بھی یہی کہا گیا کہ جماعت اسلامی نے غلط وقت پر غلط آدمی سے رابطہ کیا وہ فوج سے رابطہ کر لیتی تو کامیابی کے امکانات پیدا ہو سکتے تھے، جب ریاست عمران خان کے خلاف پوری قوت سے کاروائی کر رہی تھی اس وقت عمران خان کی حمایت کا حصول کیا درست سیاسی حکمتِ عملی تھی؟

٭ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسلامی جماعتیں پچیس سال کیلئے جمہوری جدو جہد سے الگ ہو جائیں اس عرصے میں اپنے تمام کاموں کا گہرا ناقدانہ جائزہ لیں نئی حکمت عملی مرتب کریں، ڈاکٹر اسرار نے جماعت اسلامی کو پیش کش کی تھی کہ اگر جماعت ۵۲ سال کےلئے جمہوری جدو جہد ترک کر دے تو وہ تنظیم اسلامی کو جماعت میں ضم کر دیں گے، سوال یہ ہے کہ پچیس سال سیاست سے الگ ہو جانا کامیابی کی ضمانت ہے؟ ان پچیس سالوں کی حکمتِ عملی کیا ہوگی اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا؟

٭ کیا جمہوری عمل کے متبادل قوت و اختیار کے راستے موجود ہیں؟ راستے تو موجود ہیں لیکن اس کےلئے محنت کی ضرورت ہے اور مذہبی سیاسی جماعتیں اس محنت کےلئے تیار نہیں وہ فوری طور پر اپنی محنت کا صلہ ووٹ کے ذریعے مانگتی ہیں جو انہیں نہیں ملتا

٭ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے عوام تو اسلام چاہتے ہیں مگر حکومت، ریاست، طاقت کے دیگر ادارے اسلامی ریاست نہیں چاہتے لہذا یہ انتخابی عمل میں دھاندلی کرکے مذہبی سیاسی جماعتوں کو جعلی طریقے سے ناکام کرتے ہیں اگر دیانت دارانہ الیکشن ہوں اور ایماندارانہ طریقے اختیار کئے جائیں تو مذہبی جماعتوں کو بھاری اکثریت حاصل ہو سکتی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے اقتدار میں آئے بغیر دیانت دارانہ الیکشن کیسے ممکن ہیں؟ اور جب وہ اقتدار میں نہیں آئیں گی تو دیانت دارانہ الیکشن کون کرائے گا؟

٭ ۰۱۹۷۰ء سے لے کر ۲۰۱۸ء کے الیکشن تک تمام سیاسی مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک میں نمایاں ترین کمی دیکھی گئی ہے اس کمی کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا مذہبی جماعتوں نے اس پر کبھی غور کیا ہے؟ اس وقت ان کا دائرہ صرف ایک نکاتی احتجاجی جدوجہد ہے، کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس ایک نکتے، مسئلے کو لے کر احتجاج شروع کر دیتی ہیں پھر یہ احتجاج بھی رفتہ رفتہ ختم ہو جاتا ہے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، کیا مسلسل احتجاجی جدوجہد سے عوام کی بڑی تعداد مذہبی جماعتوں میں شامل ہو جاتی ہے یا مذہبی سیاست سے الگ ہی رہتی ہے؟

٭ کیا مذہبی جماعتوں کو یہ نہیں معلوم کہ جمہوریت میں احتجاجی جدوجہد جمہوری عمل کا حصہ ہے؟ کوئی جماعت ساری زندگی حکومت کے خلاف پر امن احتجاج کرے تو ریاست کبھی اس احتجاج پر پابندی نہیں لگائے گی ریاست جانتی ہے کہ احتجاجی جدوجہد چند ہفتوں سے زیادہ نہیں چلتی لوگ مایوس ہو جاتے ہیں جدوجہد کرنے والے اپنا راستہ بدل لیتے ہیں، کینیڈا میں وہاں کے اصل مقامی باشندوں (Indigenous peoples) کی جماعت اپنے حقوق کےلئے دس سال سے احتجاج جدوجہد کر رہی ہے، پارلیمنٹ کے سامنے ان کا شامیانہ دس سال سے لگا ہوا ہے جہاں وہ اپنے حقوق کےلئے احتجاج کرتے رہتے ہیں، ریاست انہیں کچھ نہیں کہتی کہ یہ پرامن جدوجہد ہے، اس سے جمہوری عمل اور زیادہ طاقت ور ہوتا ہے، ریاست اس عمل سے مضبوط ہوتی ہے، ادارے مستحکم رہتے ہیں اور ناراض لوگ اپنی ناراضگی کا اظہار کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں، دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جدوجہد اگر پرتشدد ہو تو نتیجہ نکل آتا ہے مثلاً امریکہ میں کالوں نے اپنے حقوق کےلئے پرتشدد مظاہرے کئے اور امریکہ کو بند کر دیا تو حقوق مل گئے امریکہ کے لوگوں نے برطانیہ سے جنگ کی تشدد کیا تو امریکہ آزاد ہو گیا، یوروپی ممالک میں ہر سال قرآن کریم کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی رہتی ہے لیکن پرتشدد مظاہرے نہیں ہوتے، اگر دس بیس پر تشدد مظاہرے ہوں تو ریاست لاء اینڈ آرڈر کی خاطر، امن کے لئے، معاشی سرگرمیوں کی بحالی کےلئے توہینِ رسالت پر پابندی لگا سکتی ہے مگر وہاں کے مسلمان پر امن مظاہرے کرتے ہیں۔

٭ تقسیم ہند کے وقت سے علماء اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے سیاست میں حصہ لینے کا آغاز کیا آج ایک صدی کے بعد کیا وہ ایک لمحے کےلئے رک کر یہ سوچنے پر تیار ہیں کہ اس طویل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں کیا ان کی منزل قریب آئی ہے یا اور دور ہو گئی ہے؟ کیا ان مذہبی جماعتوں اور علماء کی قوت میں زبردست اضافہ ہوا ہے یا زبردست کمی ہوئی ہے؟ ۱۹۴۸ء میں پاکستان میں دینی مدرسوں کی تعداد بہت کم تھی مگر علماء کی قوت بہت زیادہ تھی آج دینی مدارس ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن علماءکی قوت کم ہوئی ہے کیونکہ اب ایک اہم ترین مسئلہ ادارے کو بچانا ہے، ادارے کو بچانا بھی اسلام ہی کا کام ہے لہذا علماء کیا کریں؟ یہ مسائل ہیں لیکن ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور ان کا حل بھی نکالنا علماء کی ذمہ داری ہے۔

٭ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں کے فوج کے ساتھ قریبی اور مثالی تعلقات ہیں، اس تعلق کی مذہبی دلیل مذہبی قوم پرستی کے ذریعے نکالی گئی ہے کہ اسلام کا مطلب پاکستان، پاکستان کا مطلب اسلام اور اسلام کی محافظ فوج ہے لہذا پاکستان، فوج اور اسلام تینوں میں کوئی فرق نہیں، فوج کی حمایت در اصل اسلام ہی کی حمایت ہے، اس دلیل کے ذریعے پاکستان میں مذہبی قوم پرستی کو جواز مل گیا ہے، لبرل اور سیکولر حلقے فوج کے شدید مخالف ہیں لیکن ریاست ان کے خلاف کوئی سخت کاروائی نہیں کرتی کیونکہ عالمی طاقتیں، NGO’S, UNO، لبرل ادارے ان کی پشت پر ہیں لیکن اسی فوج نے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد مدارس کے طلباء، علماء کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جبکہ یہ سب فوج کے حلیف تھے، فوج نے اپنے حلیفوں سے مذاکرات نہیں کئے، اس کی کیا وجہ تھی اگر مذہبی سیاسی جماعتیں اس نکتے پر غور کر لیں تو بہت سے حقائق ان پر منکشف ہوں گے، جہاں مذاکرات ہوئے وہاں مذاکرات بے نتیجہ رہے، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دینی مدارس کے طلباءکو کلاشنکوف فوج نے پکڑائی تھی، ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ اس وقت کیا کر رہے تھے؟ آپ خاموش کیوں تھے؟ آپ نے اس بارے میں طلباء کی اور قوم کی کیا رہنمائی کی؟ مدارس کے ہزاروں طلباء کو غائب کیا گیا، سینکڑوں کو قتل کیا گیا، مذہبی قیادت نے کوئی احتجاج تک نہیں کیا، لبرل نقیب اللہ محسود کو راو انوار نے غلطی سے مار دیا تو عالمی لبرل قوتوں نے اسے ملازمت سے برطرف کرا دیا لیکن اس سپاہی نے دینی مدارس کے تین سو لڑکوں کو شہید کیا تو اس کے خلاف پاکستان کی کسی دینی جماعت نے احتجاج تک نہیں کیا آخر کیوں؟ طلباء کو مارنے کے بجائے گرفتار کیا جاتا ان سے بات چیت کی جاتی آخر پاکستانی فوج نے پاکستان دشمن جئے سندھ تحریک کو قبول کیا یا نہیں؟

٭ پاکستانی لبرل سیکولر حلقوں کی فوج پر سخت تنقید کے باوجود فوج ہمیشہ ان سے نرمی کا معاملہ کرتی رہی لیکن جہادی تحریکوں کے مذہبی رہنماوں سے اس کا معاملہ بالکل مختلف تھا حالانکہ یہ جہادی تحریکیں ماضی میں فوج کی حمایت سے ہی آگے بڑھی تھیں، ان تحریکوں کے ساتھ فوج کا رویہ وہ نہیں تھا جو لبرل کے ساتھ تھا، لبرل حلقے مذہبی حلقوں پر ملٹری ملا اتحاد کی پھبتی کستے ہیں، فوج سے اتنے قریبی تعلق کے باوجود فوج نے آج تک مذہبی جماعتوں کے رہنماوں کو اقتدار میں آنے کا کوئی راستہ کیوں نہیں دیا؟

٭ جماعت اسلامی نے نظریہ پاکستان کے تحفظ کےلیے جنرل یحیٰی خان اور ضیاء الحق کی حمایت کی مشرقی پاکستان میں ڈاکٹر مالک کی فوجی کابینہ میں جماعت اسلامی کو تین وزارتیں دی گئیں، ضیاء الحق کی کابینہ میں جماعت اسلامی کو تین اہم وزارتیں دی گئیں لیکن جماعت اسلامی نے جلد استعفیٰ دے دیا، فوج سے اس قریبی تعلق کے باوجود فوج نے جماعت اسلامی کو یا کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت کو ابھی تک PPP, PTI اور PML کا متبادل کیوں نہیں سمجھا؟ اس ایک نکتے پر اگر غور کر لیا جائے تو بہت سے راز کھل جائیں گے حقائق بے نقاب ہوں گے۔

٭ ایک محترم مکرم مفتی صاحب نے ایک مرتبہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستانی ریاست جب بھی کسی مشکل میں ہوتی ہے تو ہم سے رجوع کرتی ہے لیکن جب
مشکل وقت نکل جاتا ہے تو وہ ہم سے بات کرنے کی بھی روادار نہیں ہوتی، سوال یہ ہے کہ ریاست مشکل وقت میں آپ کو مدد کیلئے پکارتی ہے تو آپ ریاست کی مشکل آسان کرنے کےلئے کیوں پہنچ جاتے ہیں یہی تو وہ وقت ہے جب آپ ریاست سے دو ٹوک بات کر سکتے ہیں، ریاست کو ”پیغام پاکستان“ کے نام سے فتویٰ لینا تھا تو وہ علماء کے قریب آ گئی علماء نے فتویٰ بھی دے دیا کہ ریاست کو جہاد کا حق حاصل ہے، کسی مذہبی گروہ اور منظم جتھے کو جہاد کا حق حاصل نہیں مگر وہ یہ بھول گئے کہ آئین پاکستان میں جہاد کی اصطلاح سرے سے موجود ہی نہیں ہے، آئین کی دفعہ ۲۴۵ میں ریاست نے فوج کو صرف اور صرف دفاع پاکستان کا حق دیا ہے یعنی کسی جارحیت کے خلاف Defense of Pakistan فوج وطن کی سرحدوں کا دفاع کرے گی، آئین بتا رہا ہے کہ جدید ریاست آئینی ریاست جہادی ریاست نہیں ہوتی، نہ وہ جہاد کرتی ہے نہ اس کا مقصد جہاد ہوتا ہے، جہاد ایک مذہبی امارت کا مسئلہ ہے جدید ریاست کا نہیں، جدید ریاست کی ماہیت، حیثیت اور حقیقت کیا ہے؟ مذہبی سیاسی جماعتوں نے کبھی اس پر غور ہی نہیں کیا، وہ جدید ریاست کی تخلیق پر غور کریں، مطالعہ کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ امارت، بادشاہت، مملکت، سلطنت اور جدید ریاست میں زمین آسمان کا فرق ہے، جدید ریاست خدا کی جگہ لیتی ہے اور ریاست کے شہریوں کو اپنا بندہ تصور کرتی ہے، تمام بندوں کو ریاست کے احکامات کی پابندی کرنی ہے، ریاست تمام قوتوں، نظاموں پر بالا دست ہے، شریعت بھی ریاست کے تابع ہے، ریاست شریعت کے تابع نہیں، ریاست آئین دیتی ہے لیکن ریاست جب چاہے آئین اور قانون کو معطل کرنے کا حق رکھتی ہے، اسلامی امارت میں کوئی حکمران شریعت کو معطل کرنے کا حق نہیں رکھتا، حیرت ہے کہ مذہبی جماعتوں نے ”جدید ریاست“ کو خلافت عثمانیہ کا متبادل سمجھا ہے، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو بے شمار غلطیوں کا سبب بن رہی ہے، جدید ریاست اٹھارویں صدی کی مغربی ایجاد ہے، یہ اپنی سرشت میں سیکولر ہوتی ہے، یہ قادر مطلق Sovereign ہوتی ہے، سب اس کے زیر دست ہوتے ہیں، کوئی اس پر بالا دست نہیں ہو سکتا، دین، شریعت سب ریاست کے تابعدار ہوتے ہیں، ریاست جب چاہے شریعت کو بھی معطل کر سکتی ہے، کورونا میں یہی ہوا مساجد بند کر دی گئیں، پیدا ہونے والا بچہ جدید ریاست کا شہری پہلے ہے اور اس کے بعد کسی کا بیٹا ہوتا ہے، اصول استثناء State of Exception صرف اور صرف ریاست کو حاصل ہے، کارل اشمتھ (Carl Schmitt) (جو ریاست کا بہت بڑا فلسفی ہے) لکھتا ہے کہ ”جس طرح خدا معجزے کے ذریعے کائنات کے نظام میں تعطل پیدا کرکے اپنے وجود کا اظہار کرتا ہے جدید ریاست بھی آئین اور قانون کو معطل کر کے خدا کی طرح اپنی قوت کا اظہار کرتی ہے“ کورونا کے زمانے میں دنیا کی کسی پارلیمنٹ سے نہیں پوچھا گیا کہ سماجی فاضلہ کتنا رکھا جائے؟ جدید ریاست نقاب الٹ کر سامنے آ گئی اور اس نے تمام پابندیاں لگا دیں، انسانی حقوق کے تحت انسانوں کو دی گئی فریڈم ریاست نے چھین لی، فریڈم کا مطلب ہی یہی ہے کہ بس ریاست کے احکامات کی پیروی کرو تمہیں اسی کام کی آزادی ہے۔

٭ ایم ایم اے (MMA) نے مشرف دور میں قومی اسمبلی کی کثیر نشستیں حاصل کیں مولانا فضل الرحمان کو وزیراعظم نامزد کیا انہیں دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل تھی، ان کی کامیابی کے سو فیصد امکانات تھے، جس طرح حافظ نعیم الرحمن کی کامیابی کے سو فیصد امکانات تھے، جنرل مشرف نے فضل الرحمان صاحب کو پیغام دیا کہ وہ وزیراعظم کے عہدے پر الیکشن نہ لڑیں، وجہ یہ تھی کہ مغرب کو مولانا فضل الرحمان کا چہرہ یعنی داڑھی ٹوپی عمامہ پسند نہیں تھا، مشرف صاحب پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر ایک مذہبی چہرے کو دیکھنے کے روادار نہیں تھے لہذا انہیں بھاری اکثریت ہونے کے باوجود الیکشن میں ہرا دیا گیا، مشرف صاحب نے جو کچھ کیا وہ جدید ریاست کا حقیقی تقاضہ تھا، مشرف صاحب نہ ہوتے کوئی اور بھی ہوتا تو فیصلہ یہی ہوتا، حیرت ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس اقدام کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ نہیں لیا، اس کی روشنی میں اپنی سمت سفر طے نہیں کی، فوج نے بتا دیا کہ مذہبی قیادت، سیاسی قیادت اور منصب کیلئے قابل قبول نہیں ہے اگر مذہبی جماعتیں ابھی تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں تو ہمیں حیرت ہے۔

٭ کیا جماعت اسلامی جمہوری جدو جہد کے ذریعے کبھی کامیابی حاصل کر سکتی ہے؟ ہمارا جواب ہے کہ نہیں، سوال کیا جا سکتا ہے کہ ترکی میں اردگان نے اسلامی قوتوں کی مدد سے کامیابی حاصل کی تو جماعت اسلامی کو کامیابی کیوں نہیں مل سکتی؟ ترکی اور پاکستان کی مذہبی فضاء میں زمین آسمان کا فرق ہے، وہاں اعتقادی مسائل در پیش نہیں ہیں اور اردگان کو تمام اسلام پسند حلقوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، جماعت اسلامی کو اعتقادی مسائل کا سامنا ہے، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، تبلیغی جماعت والے جماعت اسلامی کے عقائد کو درست نہیں سمجھتے لہذا مذہبی حلقوں کے ووٹ جماعت کو نہیں ملتے، جب تک جماعت اسلامی دیوبندی، بریلوی حلقوں سے اعتقادی مسائل کے حل پر بات نہیں کرتی مسائل موجود رہیں گے، قاضی حسین احمد نے اپنے دور نظامت میں زاہد الراشدی صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مولانا مودودی کی قابلِ اعتراض باتوں کو ان کی کتابوں سے نکال دیں گے لیکن یہ وعدہ پورا نہ ہوا پاکستان کی تمام مذہبی جماعتوں کو ایک قوت بننے کےلئے اعتقادی سطح پر اپنے اختلافات ختم کرنا ہوں گے، ان اعتقادی اختلافات کو ختم کئے بغیر کوئی بھی مذہبی سیاسی جماعت جمہوری جدوجہد سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور اگر کامیاب بھی ہو جائے تو مصر، الجزائر، فلسطین اور اب جناب حافظ نعیم الرحمن ہمارے سامنے ہیں، ترکی میں بائیں بازو کے غلبے کے خوف سے اردگان کو قبول کیا گیا ورنہ وہاں بھی مصر والا معاملہ ہوتا، رسالہ New Left میں ایک اہم مضمون NATO Islamists پڑھئے! طیب اردگان دار الحرب یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کےلئے کیا کچھ کرتے رہے؟ وہ سب تاریخ کا حصہ ہے ہم اسے فراموش نہیں کر سکتے۔

٭ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر جمہوری تجربہ کامیاب نہیں ہے تو کیا چین، فرانس، امریکہ، روس، جرمنی اور ایران کے انقلابات کا تجربہ پاکستان میں نہیں کیا جا سکتا؟ کیا حزب التحریر کی طرح فوج کو اسلامی انقلاب کا حامی نہیں بنایا جا سکتا؟ کیا فوج سے محاذ آرائی کے بغیر اقتدار کے ایوان میں داخل ہونے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے؟ انقلابات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انقلاب یا تو فوج کی حمایت سے ممکن ہوتا ہے یا فوج کو شکست دے کر لیکن اس کےلئے ایک انقلابی جماعت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ایک انقلابی منشور کی بھی، پاکستان کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور سیکولر جماعتوں کے انتخابی منشور میں کوئی فرق نہیں سب روٹی، کپڑا اور مکان کی بات کرتے ہیں انقلابی جماعت لوگوں کو ان خواہشات سے اوپر اٹھا دیتی ہے، ایمی چوا نے اپنی کتاب The World On Fire میں جناب خمینی صاحب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم نے انقلاب تربوز کی قیمت کم کرنے کےلئے برپا نہیں کیا، خمینی صاحب کے اس جملے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انقلاب آئے گا تو لازماً تربوز کی قیمت چڑھے گی، وہ صرف یہ بتا رہے ہیں کہ انقلاب دلوں کی دنیا بدلنے کےلئے آتا ہے، معاشی، مالی، مادی خواہشات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، ان کےلئے انقلاب کو قربان نہیں کیا جا سکتا، انقلاب لانے والوں کو انقلاب قائم رکھنے کےلئے بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں، کیا پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتوں میں فی الواقع کوئی حقیقی انقلابی جماعت موجود ہے؟ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک انقلابی جماعت ہے لیکن مسلسل دستوری سیاسی جمہوری جدو جہد میں مصروف ہے لہذا اگر انقلابی جماعت کا یہی مقصد ہے تو مولانا فضل الرحمان کی JUI، مولانا نورانی کی JUP، مرکزی جمعیت اہلحدیث، علامہ خادم رضوی صاحب کی TLP تمام انقلابی جماعتیں ہیں، کیونکہ تمام مذہبی جماعتوں کے نعرے، رویے، مقاصد، منشور، اقدامات، لائحہ عمل، راستے جمہوری سیاست کے کوہ ندا کی طرف ہی جاتے ہیں، جمہوریت میں انقلاب نہیں آتا بلکہ جدید ریاست غالب سرمایہ دارانہ نظام اور غالب علمیت سے مصالحت ہوتی ہے اور اسی نظام کی اصلاح کی جاتی ہے جسے باطل بھی کہا جاتا ہے، مخلص اور نیک لوگ نیک جماعتیں جب اخلاص سے جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کی اصلاح کا کام کرتی ہیں تو اس سے سرمایہ دارانہ نظام کمزور نہیں ہوتا بلکہ طاقتور ہوتا ہے، انقلاب تو نظام کو کمزور کرنے بلکہ گرا دینے کا نام ہے نہ کہ اسے طاقت ور کرنے کا، ہمیں تو حیرت اس بات پر ہے کہ مختلف سیاسی مذہبی جماعتوں تحریکوں نے جو اسلامی سکول کھول رکھے ہیں ان میں لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم میں کوئی فرق نہیں جو تعلیم لڑکے کو دی جا رہی ہے وہی تعلیم لڑکی کو دی جا رہی ہے، ۲۲ سال کی تعلیم کے بعد ایک لڑکی PhD کرتی ہے تو اسے قرآن کی آیت سے بتایا جاتا ہے کہ ”قرن فی بیوتکن“ عورت کا اصل مقام تو اس کا گھر ہے، اس کا خاندان ہے، اس کے شوہر اور بچے ہیں، وہ سوال کرتی ہے کہ میری زندگی کے ۲۲ سال کیوں ضائع کئے گئے؟ مجھے امور خانہ داری، خاندانی تعلقات، پکوان، بچوں کی نگہداشت کی تعلیم کیوں نہیں دی گئی؟ میں تو اب نوکری کروں گی میں گھر نہیں سنبھال سکتی، اس کے نقطہ نظر کا جواب صرف خاموشی ہے، انقلابی جماعت خاموش نہیں رہتی وہ صورت حال کا جائزہ لیتی ہے، غلطی کی اصلاح کرتی ہے، کمزوریوں کو دور کرتی ہے اور اسلامی علمیت کے مطابق ایک مضبوط موقف اختیار کرتی ہے، اس پر سمجھوتہ نہیں کرتی، افسوس یہ ہے کہ ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کی تاریخ سمجھوتوں کی تاریخ ہے، سمجھوتوں سے کبھی انقلاب برآمد نہیں ہوتا۔

٭ جماعت اسلامی کو یہ یاد نہیں رہا کہ ان کے قائد مولانا مودودی نے طاہر مسعود کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”جماعت اسلامی نے کبھی نہیں کہا کہ اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستے سے ہی آ سکتا ہے“ (جسارت فرائیڈے اسپیشل ۷ مارچ،۲۰۱۴ ص ۲۹) امیر جماعت اسلامی بنگلادیش پروفیسر غلام اعظم نے کہا ہمارے کارکنان یہ خیال کرتے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے اسلامی انقلاب نہیں آ سکتا جبکہ جماعت اسلامی کی لیڈر شپ ایسا نہیں سمجھتی اس راستے پر جانے سے فوج کو فائدہ ہوگا (جسارت فرائیڈے اسپیشل ۳۱ اکتوبر، ۲۰۱۴ ص ۱۸) سوال یہ ہے کہ عسکری جدوجہد کے سوا دوسرے تمام راستے بند ہو چکے ہیں؟ اس سوال پر بار بار غور کی ضرورت ہے۔

٭ اسلامی تاریخ میں تبدیلی کے بہت سے طریقے ہیں ترکان عثمان کا طریقہ، مغل سلطنت کے قیام کا طریقہ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ کا طریقہ، اصحاب الاخدود کا طریقہ، ایران میں انقلاب کا طریقہ، کیوبا میں کاستروکا طریقہ، کیوبا امریکہ سے پچاس میل کے فاصلے پر ہے لیکن اس نے امریکی غلامی قبول نہیں کی حالانکہ امریکہ، کاسترو دونوں مادہ پرست ہیں، آزادی مساوات ترقی دونوں کا عقیدہ ایک تھا، طریقہ کار مختلف تھا لہذا کاسترو اور امریکہ میں صلح نہ ہوسکی کاسترو کی قوم نے شدید مالی، معاشی، مادی نقصانات اٹھائے، امریکہ سے مفاہمت نہیں کی، امریکہ کا ایک ہی مطالبہ تھا صرف جمہوریت، کاسترو نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، کاسترو کسی قسم کی روحانیت کے بغیر ایک مادی قوت سے مادی سطح پر لڑتا رہا اور کامیاب رہا، کیوبا میں کاسترو ازم تھا، لوگ کاسترو سے محبت کرتے تھے، اس پر جان نچھاور کرتے تھے، امریکہ نے کاسترو پر پچاس حملے کرائے لیکن عوام حملوں کے وقت کاسترو کے سامنے آ جاتے وہ اسے بچا لیتے، کیا اسلامی تحریکوں کے کسی لیڈر کو عوام میں یہ مقبولیت حاصل ہے؟ کاسترو ازم اور وہاں کے عوام کے بارے میں نوم چومسکی نے اپنی کتاب Profit The میں جو معلومات مہیا کی ہیں وہ نہایت حیران کن ہیں اسلامی تحریکیں اس کے مطالعہ سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

٭ ایرانی انقلاب اس لئے کامیاب ہوسکا کہ علماء نے ۷۰ سال تک بادشاہ کے خلاف مسلسل جدو جہد کی علماء نے ریاستی عہدے قبول کرنے سے انکار کر دیا وہ ریاستی دائرے سے باہر نکل کر اپنے علمی، عقلی، تاریخی، روایتی اور روحانی دائرے میں آ گئے، شہنشاہ کی مزاحمت وہ قربانیاں دے کر کرتے رہے، ایک اہم بات ان کا مسلک تھا، ان کے درمیان عقیدے اور مسلک کی بحث نہیں تھی، وہ اپنے مجتہدین سے محبت رکھتے تھے، ان کا حکم مانتے تھے لیکن انقلاب روحانیت کی بجائے مادیت کی طرف گیا، جمہوریت اور معیار زندگی اصل اقدار بنیں تو اب انقلاب تیزی سے تحلیل ہو رہا ہے، ایران میں ۲۰۲۳ء میں حجاب کے خلاف حجاب پہننے والی عورتوں کا احتجاج خطرناک مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے، ایران کے الیکشن میں ایک ہی مسئلہ، سوال تمام مذہبی رہنماوں کیلئے اہم ہوتا ہے کہ مہنگائی کون کم کرے گا؟ تربوز کی قیمت کیسے کم ہوگی یعنی انقلاب اسلامی اب صرف سستی روٹی کا نام رہ گیا ہے، کوئی مادہ پرستی سے اوپر اٹھنے کیلئے تیار نہیں، وجہ یہ ہے کہ ایرانی علماءنے ایرانی عوام کا معیار زندگی بہت بلند کر دیا، اب عیش کرنے والے عیش میں کمی کہاں سے برداشت کریں ایرانی علماء کتنے متجدد ہو گئے ہیں کہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا، کئی علماء مارکس، ہیگل، لبرل ازم، عقلیت پرستی، جدیدیت کے حامی ہو گئے ہیں، اس کے لئے ایک کتاب پڑھئے! The Voices Of Islam۔

٭ حافظ نعیم الرحمن کو شکست پی پی پی نے نہیں ان لوگوں نے دی ہے جو PTI کی تمام قیادت کو اڈیالہ جیل لے گئے، معافی نامے لکھوائے، جیل سے رہا کر کے سیدھا نیشنل پریس کلب لے گئے اور وہاں PTI سے لاتعلقی کا اعلان کراتے رہے، حافظ نعیم الرحمن کی شکست کا پیغام یہ ہے کہ جمہوریت کے ذریعے کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب آپ کے فوج سے سیاسی تعلقات ہوں کیا یہ ممکن ہے کہ جماعت اسلامی فوج کو قائل کرے کہ اقتدار کے اہل ہم ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ماضی میں فوج نے مولانا فضل الرحمان کو وزیراعظم کے عہدے پر اسی طرح شکست دی جس طرح حافظ صاحب کو دی گئی، اسلامی جماعتوں کو شکوہ ہے کہ عوام ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں مگر ووٹ نہیں دیتے، اسلامی جماعتیں تشہیر کے تمام جدید طریقے اختیار کرتی ہیں لیکن ان کے اجتماعات میں دس بیس ہزار اور لاکھ سے اوپر لوگ جمع نہیں ہوتے اس کے برعکس دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں کسی پلاننگ اور پروپیگنڈے کے بغیر لاکھوں لوگ جمع ہو جاتے ہیں، ان کا طریقہ دعوت ہے جو سنت رسول سے نکلا کہ ہر فرد کو دعوت دو یہ کام انفرادی ہوتا ہے ادارتی نہیں وہ فرد کے پورے وجود کو مخاطب کرتے ہیں لہذا لوگ اس دعوت کو قبول کرتے ہیں، کیا سیاسی اسلامی جماعتیں اس طریقے سے عوام کے اندر اثر و نفوذ اختیار کر سکتی ہیں۔

٭ دعوتِ اسلامی اور تبلیغی جماعت Interpersonal Communication کو اختیارکرتی ہیں، مذہبی سیاسی جماعتیں اس طریقے کو اختیار نہیں کرتیں وہ Contact Mass کے اصول پر چلتی ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیا، جلسوں کے ذریعے اپنی طاقت میں اضافہ کرتی ہیں لیکن عملاً ان کی قوت و طاقت میں کمی واقع ہوئی ہے، دعوتِ اسلامی کا طریقہ اختیار کیا جائے تو اس کےلئے سیاست سے دستبردار ہونا پڑتا ہے یہ ممکن نہیں تو عوام تک پہنچنے کا ذریعہ کیا ہو اور ان کے دل میں اترنے کا راستہ کون بتائے؟