ارون الرشید کا دلچسپ واقعہ ہے، وہ ایک دن محل سے سیر کے لئے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک شاعر فکر سخن میں محو اور غرق کچھ تصنیف کر رہا ہے اور کاغذ پر اشعار ابرِ باراں کی طرح برس رہے ہیں، ہارون الرشید نے طنزاً پوچھا، کیا جھوٹ گھڑ رہے ہو؟ شاعر نے بے ساختہ جواب دیا، حضورِ والا کی شان میں قصیدہ لکھ رہا ہوں، عہدِ حاضر کے جدیدیت پسند مفتی اسی طرح جدید سائنس، جدید معیشت اور جدید ٹیکنالوجی کے کمالات پر مشتمل جھوٹے قصیدے تصنیف کر رہے ہیں، اسی کراچی شہر کے بلاول گوٹھ، صفورا گوٹھ، بھٹائی کالونی، اورنگی ٹاؤن، مچھر کالونی، ہاکس بے کے اردگرد کے غریب علاقے، لیاری، کراچی کے قدیم ساحلی علاقے جہاں لاکھوں لوگ چھ فٹ کے ایک کمرے میں چھ چھ سات سات افراد کی صورت میں رہ رہے ہیں، اس چھوٹے سے کمرے میں رہنے والوں کا روزانہ خرچ، دیگر اخراجات، روز کا کرایہ، مکان کا کرایہ نکال کر تیس روپے سے زیادہ نہیں ہے، اسی میں یہ دن بھر کی غذا، دوا، دودھ، اناج مہیا کرتے ہیں، یہ دن میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھاتے ہیں، ہڑتال کے دنوں میں یہ محدود آمدنی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں تو دو دو دن بھوکے رہتے ہیں، ان کے چھوٹے شیر خوار بچے ماں کے دودھ سے محروم ہیں کہ بھوکی ماں کے سینے میں قدرت کے عطاء کردہ دودھ کے سوتے جدید سرمایہ داری اور جدید انسان کے رویوں نے خشک کر دیئے ہیں، ہڑتال کے دنوں میں ماں چھوٹے شیر خوار بھوکے بچوں کو شکر ملا پانی پلاکر بڑا کرتی ہے، اس شہر میں وہ گھر بھی ہیں جہاں حاملہ عورت دو دو تین تین دن فاقے سے رہتی اور صحت مند بچے کو جنم دیتی ہے، لیکن ان گھرانوں کے مرد ڈاکے نہیں ڈالتے، یہ غیرت مند کسی سے مانگتے بھی نہیں، یہ بھوکے رہ کر عزت بچاتے ہیں، کسی سے شکایت تک نہیں کرتے، یہ واقعات افسانے، کہانیاں اور من گھڑت نہیں ہیں،
راقم السطور ان دل ہلا دینے والے واقعات کا عینی شاہد ہے اور اس کا دل لہو لہو ہے، وہ ان خاندانوں کو ذاتی طور پر جانتا ہے، مہاجرین و متاثرین کے کیمپوں میں لاکھوں بچے روزانہ بھوکے سوتے ہیں، یہ صرف میرے ملک کا حال ہے، افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ، چین، روس، ہر جگہ غربت کا رقص جاری ہے، اللہ کی مخلوق بھوکی ہے اور در بہ در ہے، اس غربت میں لوگ اپنے ذوقِ جمالیات کےلئے قد بڑھانے کےلئے دو دو لاکھ ڈالر خرچ کرتے ہیں اور اس میں حرج کوئی نہیں ہے، ایک دنیا دار فقیہ بھی یہی فتویٰ دے گا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، آپ کا پیسہ ہے، رزقِ حلال ہے، اس سے اپنا علاج معالجہ شریعت کی نظر میں محمود ہے، جمیل نظر آنے اور جمال کےلئے رزقِ حلال خرچ کرنے میں کوئی امرِ شرعی مانع نہیں ہے، ظاہریت پرست یا حرف پرست Literalist اور صرف لفظوں کے ظاہری علم تک محدود جدیدیت پسند مفتی اسی قسم کے فتوے دے سکتے ہیں، امام غزالی رحمہ اللہ کی احیاء العلوم ایسے لفظ پرست مفتیوں کی علمیت اور حقیقت کھول کر رکھ دیتی ہے، دو لاکھ ڈالر خرچ کرکے چار انچ قد بڑھانے والی جدید، سفاک، قاتل خونی عورت سے پوچھا جائے کہ تمہیں بھوکے کو کھلاتے ہوئے، ننگے کو پہناتے ہوئے، مفلسوں کی مدد کرتے ہوئے کیوں اچھا نہیں لگتا؟ تو اس کا جواب ہوگا: مجھے ایسا کرکے اپنے بارے میں اچھا لگتا ہے، میں اچھی لمبی نظر آتی ہوں، مجھے سکون ملتا ہے، میرا احساسِ کمتری ختم ہوتا ہے، یہ میری آزادی ہے، It makes people feel good about themselves قدیم انسان جس کی روح زندہ تھی مار دیا گیا ہے اور اس کی لاشوں کے ملبے پر جدید تہذیب اور جدید انسان کی تعمیر و تشکیل کی گئی ہے جو حاسد، حریص، لالچی اور مریض ہے، وہ اپنی ذات، اپنے نفس، اپنی خواہشات کی سطح سے اوپر اٹھنے کے قابل ہی نہیں رہا، جدید فلسفے نے اسے نفس کی قبر میں محدود و مقید کر دیا ہے، اور قبر کا حال مُردہ ہی جانتا ہے _
ــــــــــــــــــــــــــــــ