ڈاکٹر فضل الرحمن کی کتاب Islam and Modernity کا ”اسلام اور جدیدیت“ کے نام سے اردو ترجمہ محمد کاظم ندوی کے قلم سے مشعل بک لاہور نے شائع کیا ہے، علمائے کرام کو اس کتاب کا لازماً مطالعہ کرنا چاہیے، ڈاکٹر فضل الرحمن روایتی علوم کے بھی عالم تھے اور فلسفے اور جدید علوم سے بھی واقف تھے لیکن مغرب سے بے حد مرعوب، اسلامیہ کالج لاہور میں مولانا مودودی کے شاگرد بھی رہے اور کلاس میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتے تھے مگر طالب علمی کے زمانے سے ان کا رجحان جدیدیت کی طرف تھا، اپنے انتقال تک امریکی صدور کے مشیر برائے تعلیم برائے عالم اسلام رہے، انڈونیشیا کا نظام تعلیم ان کے مشورے تیار کیا گیا، عالم اسلام پر جدیدیت پسند مفکرین میں سب سے زیادہ اثر ڈاکٹر فضل الرحمن کا ہے گرچہ یہ اثر مشہور نہیں لیکن ڈاکٹر فضل الرحمن کے اثرات بہت گہرے اور بہت دور رس ہیں، ان کی کتابوں کا مطالعہ جدیدیت کے مقابلے کےلئے نہایت اہم ہے، ان کو اس بات کا ادراک تھا کہ جدیدیت کے تمام مادی مظاہر، صنعتی ترقی، سائنسی ترقی اور جدید اداروں کو اختیار کرنے کے بعد عالم اسلام وہ نہیں رہے گا جیسا کہ وہ ہے، صنعتی ترقی کے بعد عورت اور مرد کے مراتب تبدیل ہوجائیں گے، روایتی ادارے شکست وریخت کا لازما شکار ہوں گے لیکن اس فہم، درک اور احساس کے باوجود وہ عالم اسلام کو جدیدیت کے سیلاب میں بہتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے لیکن اس بہاؤ میں اپنے مذہب سے بھی وابستگی ضروری سمجھتے تھے، ظاہر ہے ان کی اسلامیت جدیدیت کے مظاہر کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھی لہذا اصلاً و عملاً جدیدیت کے ہی مقلد تھے لیکن انہیں اسلام میں تقلید پسند نہیں تھی یہاں وہ تفرد چاہتے تھے، ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب نے تقریباً ہر موضوع پر لکھا اور نہایت سنجیدگی، متانت اور گہرائی سے لکھا لیکن ان کی تحریروں کی خامیاں مطالعے کے دوران خود بخود نمایاں ہوجاتی ہیں، ”فکر و نظر“ اسلام آباد میں ان کے مضامین جب اردو میں شائع ہوئے تو پورے پاکستان میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ماہنامہ ”الحق“ ماہنامہ ”البلاغ“ ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ نے ان کا زبردست تعاقب کیا، جب تک ان کے مضامین انگریزی میں شائع ہوتے رہے علمائے کرام ان کے فکر اور خیالات سے لا علم رہے، اسی کے عشرے سے پاکستان میں رینے گینوں کا مکتب روایت اپنے افکار انگریزی میں پیش کر رہا ہے لہذا علمائے کرام اس مکتب فکر کے نقطہ نظر سے واقف نہیں، اس مکتب فکر نے اپنی کتابوں کی اشاعت کےلئے نہایت عیاری سے ”سہیل اکیڈمی“ کا سہارا لیا جو ماضی میں روایتی علوم کی امہات کتب شائع کرنے میں ممتاز مقام کا حامل تھا اور راسخ العقیدہ فکر رکھتا تھا اس کے مالکان کو یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ دین کے نام پر کیا کچھ چھاپ رہے ہیں؟ اس مکتب فکر کی کتابوں کا فلسفیانہ انداز اس کے فہم کو مشکل بناتا ہے لہذا انگریزی خواں علماء بھی ان کتابوں کے بین السطور میں مخفی بارودی سرنگوں سے واقف نہیں ہوسکتے، اس مکتب فکر نے مغرب کے فلسفے، سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ پر جو نقد لکھا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے لیکن روحانیت اور روایت کے باوجود یہ مکتب حیرت انگیز طور پر جدیدیت، جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے تعلق اور ٹیکنو سائنس کے ظہور پر نقد سے قاصر ہے لہذا ان کی کتابوں میں سرمایہ داری کی کوئی تنقید نہیں ملتی اور وہ ٹیکنو سائنس کا اسلامی احیاء اسلامی منہاج میں ممکن سمجھتے ہیں جبکہ اس کا احیاء سرمایہ داری سے تعلق جوڑے بغیر ممکن نہیں، سرمایہ داری سے تعلق جوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ حرص، حسد اور ہوس کی عالمگیریت کا مذہبی جواز پیش کر رہے ہیں جو اسلام کو کسی حال میں قبول نہیں ہے، ماہنامہ ”الحق“ ماہنامہ ”البلاغ“ اور ماہنامہ ”ترجمان القرآن“ کے اشاریوں سے ڈاکٹر فضل الرحمن کے خلاف اس عہد کے علمائے کرام کی جدوجہد، علمی تعاقب کے نقوش اور احتجاج کے خدو خال تلاش کئے جا سکتے ہیں، اس مطالعے سے یہ بھی اندازہ ہوگا کہ اس عہد کے لوگوں کی دینی حمیت کتنی طاقتور تھی اور اس عہد کے لوگوں میں رواداری کے نام پر دینی حمیت کس قدر کمزور ہو رہی ہے؟