Maarif

logo

مدیر: محمد اسلام

مدیر: محمد اسلام

انسانی تاریخ کی عظیم ترین ہستیاں انبیائے کرام اور مرسلین (علیہم السلام) ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیائے کرام (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ترین لوگ ہیں، ان کی عظمت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ انہی کے وسیلے سے انسانوں تک اللہ تعالیٰ کی ہدایت پہنچی اور انہیں کے وسیلے سے انسانوں کو خیر و شر، نیک و بد، اور جنت و دوزخ کا علم عطاء ہوا، انبیاء اور مرسلین (علیہم السلام) کی تعداد ایک لاکھ ۲۴ ہزار (کم و بیش) ہے، تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انبیاء اور مرسلین (علیہم السلام)کی عظیم اکثریت انتہائی کمزور معاشی پس منظر رکھتی تھی (یعنی ان کی عظیم اکثریت انتہائی غریب تھی) پیشے کے اعتبار سے انبیا٫ اور مرسلین (علیہم السلام) کی غالب اکثریت چرواہوں اور کاشت کاروں پر مشتمل تھی اور ہر اعتبار سے انتہائی سادہ زندگی بسر کرتی تھی، ان کی غربت اتنی نمایاں تھی کہ انہیں جب نبوت عطاء کی گئی تو اس دور کے مالدار طبقات نے ان میں سے اکثر پر یہ اعتراض کیا کہ اللہ تعالیٰ کو نبوت کےلئے تم جیسا غریب ہی ملا تھا، اسے نبوت دینی ہوتی تو ہم جیسے امیروں میں سے کسی کا انتخاب کرتا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیاء ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایک ایسی غربت میں ہوئی جس پر پستی کا سایہ تھا چنانچہ اس زمانے کے رواج کے مطابق دایا ئیں بچوں کو گود لینے کےلئے مکہ آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے کسی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گود لینا پسند نہیں کیا، دایہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گو دلیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی بچہ گود لینے کےلئے نہ مل سکا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایک ایسا زمانہ بھی آیا جب اسلام اور مسلمانوں کو شوکت عطاء ہوئی اور چہار اطراف سے مالِ غنیمت کے انبار چلے آنے لگے، اس حال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ لاکھوں دینار آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چند گھنٹوں میں ضرورت مندوں کو عطاء کر دیتے اور خود ہاتھ جھاڑ کر اٹھ جاتے، اس زمانے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دو دو، تین تین ماہ تک چولہا نہ جلتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب ”القاسم“ (تقسیم کرنے والا) تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال تقسیم کر دیتے تھے، خود اس میں سے کچھ نہ لیتے تھے، ”فقر خود اختیاری“ آپ نے اختیار کیا اور اس ”فقر“ پر فخر فرمایا، آپ نے میراث میں کوئی مال نہیں چھوڑا کیونکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اصل میراث وہ علم ہے جو انہی وحی کی صورت میں عطاء ہوا ہے، جس کے وارث علمائے کرام ہیں، پیغمبروں کے استعمال کی تمام چیزیں بیت المال کی ملکیت ہوتی ہیں، یہ اشیاء میراث میں منتقل نہیں ہوسکتیں کیونکہ پیغمبر امت کے ہوتے ہیں ان کی میراث امت کی ملکیت ہوتی ہے، وصال مبارک کے وقت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں صرف تلواریں لٹک رہی تھیں اور آپ مقروض تھے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرز زندگی کو اختیار کیا اسے اختیار کرنا ہر ایک کےلئے ہر زمانے میں ممکن ہے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سادگی کا شاہکار تھا، ایک ایسا حجرہ جس میں صرف تین قبریں (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ) سما سکتی تھیں، روئے زمین پر اللہ کا گھر (جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعے دوبارہ تعمیر ہوا) وہ بھی سادگی کا شاہکار ہے، یہ سادگی اس بات کا اعلان ہے کہ خالق کائنات کا گھر اتنا سادہ ہے تو اس کی مخلوقات کے گھر کیونکر عالیشان ہو سکتے ہیں؟ ہمارے دوست ڈاکٹر سلمان حجازی کا چھ سالہ بچہ عمرے کےلئے حدود حرم میں داخل ہوا تو اس نے برجستہ سوال پوچھا بابا! اللہ میاں تو سب سے بڑے ہیں تو ان کا گھر اتنا چھوٹا کیوں ہے باقی سب لوگوں کے گھر اتنے بڑے بڑے کیوں ہیں؟ دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے لوگ پیغمبر ہوتے ہیں اور ان بڑے لوگوں کے گھر ہمیشہ چھوٹے رہے ہیں، ہم تاریخ کے ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جب بڑے بڑے گھروں میں چھوٹے چھوٹے لوگ رہ رہے ہیں، بچے کا سوال اسلامی علمیت کی گہرائی سے ابھرنے والا سوال ہے، بچہ کوئی عالم دین نہیں ہے مگر وہ فطرت پر قائم ہے اور اسلام دین فطرت ہے، بیت اللہ شریف، حجرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور قبر مبارک رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم، انبیاء کرام علیہم السلام کے یہ تین تعمیراتی نمونے اس بات کا اعلان ہیں کہ یہ دنیا فانی ہے لہذا تمہارا فن تعمیر بھی سادہ اور فانی ہونا چاہیے، ایک فانی انسان کو لافانی یادگاریں بنا کر عاد و ثمود، سباء اور فرعون کی قوموں کی پیروی سے گریز کرنا چاہیے _

دنیا میں ”آئیڈیل“ اس ہستی اور اصول کو سمجھا جاتا ہے جو تخیل کی سطح پر بہترین ہو لیکن عملاً اس فرد کی تقلید محال ہو اور اس تخیل کا حصول ناممکن ہو، فلسفے میں ایسے تصورات کو خیالی جنت (Utopian estate)بھی کہا جاتا ہے، سائنس میں آئیڈیل مشین وہ ہوتی ہے جس کا داخل (Input) اور حاصل (Out put) برابر ہو عملاً ایسی مشین بنانا ممکن ہی نہیں ہے لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہمارے سامنے ایک ایسا آئیڈیل پیش کرتے ہیں جو محض تخیل، تصور، واہمہ، التباس نہیں ہے اور جس کی تقلید ہر عہد کے انسان کیلئے ہر عہد میں ممکن ہے، ایک امیر ترین شخص جو محل میں رہتا ہو، اس کیلئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ زندگی بسر کرنا آج بھی ممکن ہے، وہ اپنی امارت ترک کر دے، عالیشان محل سے چھوٹے گھر میں آج ہی منتقل ہو جائے، ہفتے میں دو دن روزہ رکھے، سادہ ترین کھانا کھائے، کئی کئی ہفتوں تک گھر میں چولہا نہ جلائے، اس طرزِ زندگی کو اختیار کرنے کےلئے کسی منصوبہ بندی، امریکی امداد، آئی ایم ایف (IMF) عالمی بینک (World Bank) اسلامی ترقیاتی بینک (Islamic Development Bank) سے سودی اور خیراتی قرضوں اور تکنیکی ماہرین کی ہدایات کی کوئی ضرورت نہیں مگر اس کیلئے صرف ایک شے کی ضرورت ہے اور وہ ہے ”ایمان کامل“ ایمان زوال شک اور یقین کامل کا نام ہے، یہ امت اس یقین سے محروم ہے لہذا دنیا میں ہر جگہ ٹھکرائی جا رہی ہے، انبیائے کرام علیہم السلام کا طرز زندگی وہ طرز زندگی ہے جو دنیا کا ہر فرد آج ہی اور آج بھی حاصل کر سکتا ہے، اس کےلئے پیسوں امداد، قرضوں، بھیک، خیرات کی بھی ضرورت نہیں لیکن مغرب کے طے شدہ معیارات زندگی (Standards of Living) کی خواہش کرنا اور خواہش کرنے کے بعد اس کے حصول کی آرزو میں جلتے مرتے رہنا تو ہر ایک کیلئے ممکن ہے لیکن پرتعیش طرز زندگی کی خواہش رکھنے کے باوجود اسے اختیار کرنا ہر ایک کیلئے محال (Impossible) ہے، اس خوابناک طرز زندگی کا حصول دنیا کی بہت تھوڑی سی آبادی کیلئے ہی ممکن ہے لہٰذا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسا مثالی اور معیاری طرز زندگی پیش کرتے ہیں جس کا حصول ہر عہد میں ہر ایک کیلئے ممکن رہے اور جس سے کمتر معیار زندگی اختیار کرنے کا تصور کرنا بھی کسی کےلئے ممکن نہ رہے، دین کی روح یہی ہے کہ انسان کی خواہشات کم سے کم ہوتی چلی جائیں، ”طول امل“ سے وہ بچ جائے، آخرت میں کامیابی کی خواہش پہلی اور آخری خواہش بن جائے، دنیا کی زندگی اس کیلئے حدیث کے مطابق ”مری ہوئی بکری“ سے بھی زیادہ حقیر ہو جائے، اس دنیا اور اس کی لذتوں کی طلب، جستجو، چاہت، تمنا اور آرزو اس کےلئے کسی اہمیت کی حامل نہ رہے، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سوتے تھے، جس سے جسم مبارک پر نشان پڑ جاتے تھے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ یہ نشان دیکھے تو رو دئیے اور فرمایا یا رسول الله! قیصر و کسری عیش سے رہیں اور آپ تکلیف اٹھائیں تو فرمایا ”کفار کےلئے دنیا کا عیش ہے ہمارے لئے آخرت کا عیش، ہم تو اس دنیا میں مسافر ہیں جو لمحہ بھر کےلئے سایہ میں رکا، سستایا اور آخرت کے سفر پر روانہ ہوگیا، فرمایا مومن کی مثال تو کشتی جیسی ہے جو بس پانی کی سطح سے مس ہوتی ہے، دنیا سے ایک مومن کا تعلق یہی ہے، ایک اور حدیث میں فرمایا کہ پانی کا پیالہ لاؤ پیالہ لایا گیا اس میں انگلی مبارک ڈبوئی اور نکال لی اور فرمایا مسلمان کا دنیا سے تعلق بس اتنا ہے“ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل پیغام یہ ہے کہ یہ زندگی مختصر، عارضی، فانی ہے، اس زندگی میں انسان مسافر ہے چند لمحے کےلئے ٹھہرا پھر آخرت کے سفر پر چل دیا لہذا اس قلیل سفر کا سامان بھی مختصر ہو، آخرت طویل ہے لہذا اس کا سامان بھی زیادہ ہو لہذا جو شخص دنیا کو فانی اور آخرت کو باقی اور لافانی سمجھتا ہے، وہ لازماً آخرت کیلئے زیادہ سے زیادہ سامان سفر جمع کرے گا اور دنیا کےلئے کم سے کم کہ دنیا کی چیزیں دنیا میں رہ جائیں گی، فرعون، عاد و ثمود کے محلات دنیا میں رہ گئے اور آج تک باقی ہیں، بنانے والے فناء ہوگئے مگر انہوں نے اپنے محلات کو آب بقاء پلانے کی کوشش کی، ان ہی عالیشان عمارتوں نے ان کے اندر ”ابدیت دنیا“ ”طول امل“ اور ”فخر و غرور“ کی صفات پیدا کیں، یہی خواہشات نفس قبول حق میں رکاوٹ بن گئیں، تمام عذاب رسیدہ بستیوں کے مکینوں نے اپنے پیغمبروں سے یہی کہا کہ تم مال، دنیا اور اولاد میں ہم سے ہلکے ہو، ہم تم سے بہتر ہیں، اللہ کا فضل تم پر نہیں ہم پر ہے، آخرت، اللہ وغیرہ اول تو کچھ نہیں اور اگر ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ آخرت میں بھی ہم پر اللہ کا فضل ہوگا، جس طرح اس وقت دنیا میں ہم پر تمہارے مقابلے میں اس کا فضل زیادہ ہے، جو دنیا میں کامیاب ہے وہی آخرت میں کامیاب ہوگا، جسے اللہ نے دنیا میں محروم رکھا وہی آخرت میں بھی محروم رہے گا، تم دنیا میں کمتر ہو تمہارے ماننے والے اراذل، حقیر، فقیر، غریب، کنگلے اور معاشرے کے پسماندہ ٹھکرائے ہوئے لوگ ہیں لہذا تم دنیا میں بھی حقیر و محروم ہو اور آخرت میں بھی ناکام رہو گے، عہد جدید میں یہی فلسفہ ”مارٹن لوتھر“ نے رد عمل کی نفسیات کے تحت کیتھولک عیسائیت کو کمزور کرنے کےلئے پروٹسٹنٹ ازم کے نام سے پیش کیا اور فقر، سادگی کی زندگی کو ایک لعنت ٹھہرایا، مارٹن کی اصلاحی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں اسکاٹش روشن خیالی (Scotish Enlightenment) کا ظہور ہوا، جس نے شریف آدمی اس شخص کو قرار دیا جو امیر ہو لہذا شرافت کا معیار تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ امارت ہو گیا (Wealthy Man Is Gentleman) لہذا مغربی معاشروں میں اسے عزت دی جانے لگی _

دین کا اصل ہدف یہی ہے کہ وہ لوگوں کے دل سے دنیا کی خواہشات کم سے کم کر دیتا ہے اور صرف ایک خواہش (آخرت میں کامیابی کی خواہش) کو تمام خواہشات پر غالب کر دیتا ہے لہذا ہر حال میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دی جائے، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو آخرت کو ترجیح دے گا وہ لازماً اپنی دنیا کا نقصان کرے گا اور جو دنیا کو ترجیح دے گا وہ لازماً اپنی آخرت کا نقصان کرے گا، اس لئے ایک مسلمان کے دل میں آخرت اور دنیا کی محبت ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے کیونکہ انسان کے سینے میں ایک ہی دل ہوتا ہے اور ایک دل میں ایک ہی کی محبت سما سکتی ہے، اسی لئے سورہ احزاب میں فرمایا گیا کہ ”ایک شخص کے سینے میں دو دل نہیں ہوتے“ دنیا کی حیثیت کو ایک اور حدیث میں نہایت سادہ اور آسان طریقے سے بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی دنیا کی طرف دیکھو تو اپنے سے کمتر کی طرف دیکھو اور جب بھی دین کی طرف دیکھو تو اپنے سے بہتر کی طرف دیکھو تا کہ دنیا کی محبت ختم ہو اور شکر کا جذبہ پیدا ہو کہ ہم لاکھوں لوگوں سے بہتر ہیں اور دین دار شخص کو دیکھ کر رشک کا جذبہ پیدا ہو کہ وہ ہم سے دین میں کتنا بہتر ہے، کاش! ہم بھی اس جیسے ہو جائیں، اسلامی تہذیب، علمیت اور تاریخ میں بڑا آدمی وہ عالم ہے جو سب سے زیادہ متقی اور سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوا، ایسے آدمی کا طرز زندگی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز زندگی سے قریب تر ہوتا ہے لہٰذا ہماری تاریخ میں جتنے بڑے علماء، فقہاء، مجتہد اور محدثین ہیں وہ کم کھاتے، کم بولتے اور کم سوتے تھے، وہ عیش کی زندگی سے گریز کرتے تھے وہ راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے تھے اور دنیا ان کےلئے لذتوں کے خوشے سمیٹنے کی جگہ نہیں امتحان گاہ تھی، حدیث کی ”کتاب الرقاق“ اس مزاج، معاشرت، رویے، تہذیب، ثقافت اور شخصیت کا مکمل نقشہ پیش کرتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلوب ہے، لوگ اگر اپنے تعیشات ختم کرتے جائیں گے تو ضرورت مندوں کی ضروریات زندگی پوری ہوتی جائیں گی، معیار زندگی بڑھے گا تو امیروں کے تعیشات کےلئے پیسے نا کافی ہوں گے، وہ خود فقیر نادار مسکین اور ضرورت مند بن جائیں گے لہذا انفاق کی روایت خود بخودختم ہو جائے گی، امام غزالی کی ”احياء العلوم الدین“ اسلامی تہذیب کو مطلوب روحانی نورانی وجود کے بارے میں بے شمار اہم نکات واضح کرتی ہے، افسوس کہ عصر حاضر کے اکثر دینی حلقوں اور دینی جماعتوں میں ”کتاب الرقاق“ کو غیر اہم سمجھ لیا گیا ہے، یہ کتاب انسان کے سامنے دنیا کی حقیقت کھول دیتی ہے جب حقیقت کھل جاتی ہے تو دنیا سے محبت کی خواہش خود ختم ہو جاتی ہے _

حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے بھی گہرا اثر قبول کیا چنانچہ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا معاملہ یہ تھا کہ وہ مال غنیمت کی وجہ سے ایک ہفتے تک امیر رہتے اور ایک ہفتے کے بعد اس مال غنیمت کو غریبوں میں تقسیم کر کے اگلے ہفتے خود بھی غریب ہو جاتے تھے، عہد صحابہ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اتنے بڑے سپہ سالار تھے مگر ان کے پاس نہ مال تھا نہ دولت، انتقال کے وقت صرف تلواریں اور اسلحہ ان کے پاس تھا، وہ بھی امت کیلئے وقف کر دیا، انہوں نے کبھی امیر بننے کی خواہش ظاہر نہیں کی، ان کی صرف ایک آرزو تھی کہ انہیں میدان جنگ میں شہادت نصیب ہوجائے، یہ آرزو پوری نہ ہوسکی حالانکہ ان کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جس پر زخم کے نشان نہ ہوں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ”الادب المفرد“ میں حدیث ہے کہ آپ پیوند لگے کپڑے پہنتی تھیں اور اس حالت میں اسی اسی ہزار درہم صدقہ کرتی تھیں، آپ کا حجرہ کھجور کے پتوں اور بالوں کا بنا ہوا تھا، انبیاء اور مرسلین (علیہم السلام) میں بعض ایسے بھی ہوئے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت عطاء کی، مثلاً حضرت سلیمان علیہ السلام لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کا معاملہ یہ تھا کہ جنات اور پرندوں پر ان کا حکم چلتا تھا اور وہ محل میں رہتے تھے لیکن انہیں اپنی ذات کیلئے خزانے سے ایک پیسے کے استعمال کی اجازت نہیں تھی، اس کےلئے انہیں اپنے ہاتھ سے کوئی کام کر کے روزی کمانی پڑتی تھی، حامل نبوت و رسالت ”فقر خود اختیاری“ کو اختیار کرکے غربت کو ایک مسئلہ بنانے کے بجائے اسے روحانیت کی سربلندی کا زینہ بنا دیتے ہیں، جب انبیاء اور حکمران بھوکے رہتے ہیں تو رعایا پیٹ بھر کر کھانا ضروری نہیں سمجھتی، اس کیلئے بھوکا رہنا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ بھوکا رہنا، پیٹ بھر کر نہ کھانا، پیٹ کا کچھ حصہ خالی چھوڑ دینا، کم سے کم کھانا، روحانیت کا تقاضہ بن جاتا ہے، اسی لئے رمضان کے روزے اس امت کیلئے آسان ہو گئے ہیں، حکمرانوں اور انبیاء کا طرز زندگی جب ایک غریب کی سطح سے بھی نیچے ہوجاتا ہے تو غریب کیلئے غربت شرم نہیں فخر کا سبب بن جاتی ہے، لوگوں کےلئے معیارات زندگی ختم ہو جاتے ہیں، غربت سادگی خود ایک معیار بن جاتی ہے، لوگ اس معیار کو حاصل کرنے کیلئے اپنی دولت دونوں ہاتھوں سے تقسیم کرتے ہیں، وہ ”القاسم“ ”الفقر فخری“ کی پیروی کرتے ہیں، ایسے معاشرے سادہ ترین معاشرے ہوتے ہیں مگر یہاں مطلق غربت ختم نہیں ہوتی بھوک کے سائے مٹ جاتے ہیں زندگی ہر ایک کیلئے آسان تر ہو جاتی ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا منتہائے کمال یہ ہے کہ وہ اپنی تہذیب، تاریخ، علمیت اور تمدن سے معیار زندگی کی دوڑ کو ختم کر دیتا ہے، لوگوں کیلئے آخرت اہم ہوتی ہے اور ہر شخص اپنی آخرت بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہوتا ہے اور آخرت دنیا کو قربان کئے بغیر دنیا سے کم سے کم تمتع کے بغیر ممکن نہیں رہتی، رسالت مآب صلی اللہ علیہ کا طرز زندگی ایک شاعر نے دو مصرعوں میں عجیب طرح سے بیان کیا ہے _

             ایسا  کوئی  سلطان  زمانے  میں دکھا دو 
             مٹی کا دیا جس کے شبستاں میں جلا ہو

اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسانی تاریخ کے ایک عظیم اور طویل عہد میں غربت مندرجہ ذیل مفہوم کی حامل تھی _
(۱) نبوت اور رسالت کا محل تھی
(۲) ایک عظیم روحانی اور اخلاقی قدر تھی
(۳) مجبوری کے بجائے ایک اختیاری اور شعوری حالت اور فعل تھی

ان حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ رسالت اور نبوت کی پوری تاریخ میں غربت کبھی بھی کوئی مرکزی مسئلہ نہیں رہی تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس روایت میں غربت ایک مسئلے کے طور پر کبھی موجود نہ تھی؟ ایسا نہیں ہے، نبوت کی تاریخ غربت کو ایک مسئلے کے طور پر تسلیم کرتی ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی غربت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کی ہدایت کی ہے جو انسان کو کفر تک لے جاتی ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام اور نبوت کی روایت ایسی سنگین غربت سے بچنے کی تلقین کرتی ہے جو انسان کو خدا کے وجود کا منکر بنا دے، غور کیا جائے تو یہاں بھی نبوت کی روایت غربت کو روحانیت سے الگ کر کے نہیں دیکھتی، یہی وجہ ہے کہ وہ غربت کا ایسا روحانی حل تجویز کرتی ہے جو محض اپنی ظاہری شکل وصورت یا اظہار میں معاشی نظر آتا ہے، مثلاً اسلام زکوٰۃ کے مستحکم نظام کے ذریعے معاشرے میں سرمایے کی گردش کو عام کرتا ہے، وہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ زکوٰۃ دینے کا مقصد اپنے نفس کو پاکیزہ کرنا ہے، خدا کے حکم کی تعمیل ہے اور زکوٰۃ اس لئے دی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائیں اور روز حشر اسے معاف کر دیں، زکوۃ اللہ تعالیٰ کو قرض حسن، صدقہ، خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کا مقصد روز حشر اللہ کی عدالت میں کامیابی کی خواہش ہے لہٰذا اسلام ایک ایسا پاکیزہ وجود تخلیق کرتا ہے جو دوسروں کی ضروریات کو اپنے اوپر ترجیح دیتا ہے خواہ وہ خود اپنی جگہ محتاج ہو یہ بات سورہ حشر آیت نمبر ۹ میں بیان کی گئی ہے وَالَّذِينَ تَبَوَّوُا الدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (سورہ حشر: ۹) لہٰذا زکوٰۃ اور صدقات محض معاشی سرگرمی نہیں رہتے وہ اعلیٰ ترین روحانی درجات کے حصول کا ذریعہ بن جاتے ہیں، اسلام مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ ”تمہارے گھر کے دائیں ہاتھ پر جو چالیس گھر ہیں وہ تمہارا پڑوس ہیں اور تمہارے بائیں ہاتھ پر جو چالیس گھر ہیں وہ بھی تمہارا پڑوس ہیں، اب تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنے تمام پڑوسیوں کی خبر گیری کرو اور ان میں سے اگر کوئی اب تمہارا کام بھوکا ہو تو اسے کھانا کھلاؤ، کوئی ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری کرو“، اس کے ساتھ ہی اسلام صدقات اور خیرات کو عام کرتا ہے تا کہ اسلامی معاشرے میں کوئی بھوکا، ننگا اور معاشی اعتبار سے بے یار و مددگار نہ رہے، صرف یہی نہیں وہ ”فقر خود اختیاری“ سادہ زندگی، شح نفس سے گریز، مال کی محبت سے نفور، آمدنی میں مسلسل اضافے کے باوجود اپنے معیار زندگی میں مسلسل کمی اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینا خواہ خود آپ کی ذات ضرورت مند ہو، ان اقدار و روایات نے مواخات کا ایک ایسا زبردست نظام قائم کیا جو مساوات کے نظام سے ہزار درجہ بہتر تھا، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام میں غربت ایک مسئلہ بن کر بھی روحانیت کی ایک شاخ بنی رہتی ہے _

مسلمانوں کی عام تاریخ پر نبوت کی تاریخ کا ایک اثر یہ پڑا ہے کہ بادشاہت کے عہد میں بھی بہت سے بادشاہوں نے شاہی میں درویشی کی ہے، سلطان صلاح الدین ایوبی اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیت ہیں، وہ فاتح بیت المقدس ہیں لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے پاس ایک درہم بھی نہیں تھا، اورنگزیب عالمگیر پورے جنوبی ایشیاء کے حکمران تھے اور ان کا دور حکومت پچاس سال پر محیط ہے لیکن وہ ذاتی گزر بسر کیلئے ٹوپیاں سیتے تھے اور طغرے بناتے تھے، سلطان ناصر الدین بھی برصغیر کے ایک اہم بادشاہ تھے لیکن وہ بھی ذاتی اخراجات کیلئے ٹوپیاں سیتے تھے، یہ صرف مسلمانوں کی تاریخ کا معاملہ نہیں، انبیائے کرام علیہم السلام دنیا کی ہر قوم میں مبعوث کئے گئے لہٰذا ساری دنیا کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی سادگی اور درویشی کی روایت ان امتوں کے دور زوال میں بھی ان کے بڑے لوگوں میں زندہ رہی ہے مثلاً یونان کا دور عقلیت جو اس کے زوال کا دور بھی ہے، اس عہد کے بڑے بڑے فلاسفہ ارسطو، افلاطون، سقراط، بقراط درویشانہ زندگی (Frugal Life) بسر کرتے تھے، ان کا طرز زندگی نہایت فقیرانہ اور خاکسارانہ تھا، وہ علم کو فروخت کرنے کو نہایت ذلیل کام سمجھتے تھے لہٰذا وہ سو فسطائیوں (Sophist) کے طبقے کے شدید مخالف تھے جو مختلف فنون پیسے لے کر سکھاتا تھا، وہ علم کو قابل فروخت شے تصور نہیں کرتے تھے، فقر و فاقہ ان کےلئے قابل فخر میراث تھی، یونانی حکیم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے کئی ہزار سال پہلے اس دنیا آئے، شری رام چندر ہندوؤں کی تاریخ کی مرکزی شخصیت تھے، وہ شہزادے تھے لیکن ان کی سوتیلی ماں کے ساتھ ان کے والد نے ایک کمزور لمحے میں وعدہ کر لیا تھا کہ وہ رام کے سوتیلے بھائی کو اپنے بعد بادشاہ بنائیں گے اور رام کو چودہ سال کا بن باس کاٹنے یعنی انہیں چودہ سال تک جنگل میں جا کر رہنے کا حکم دیں گے، رام نے اپنے والد کا یہ وعدہ نبھانے کیلئے اپنی بیوی سیتا اور بھائی لکشمن کے ساتھ چودہ سال بن باس اختیا رکیا، جنگل کی زندگی ہر اعتبار سے عسرت کی زندگی تھی، انہیں وہاں جھونپڑی بنا کر رہنا تھا، کھانے کیلئے جنگلی پھلوں اور سبزیوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں تھا لیکن چودہ سو سال کیلئے جنگل جاتے ہوئے رام کے اندر عیش و عشرت اور غربت کے حوالے سے کوئی کشمکش نہیں تھی، کوئی اضطراب نہیں تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہندوؤں کی تاریخ میں بن باس ایک اعلیٰ روحانی قدر کی حیثیت رکھتا تھا، رام نے چودہ سال کامیابی کے ساتھ جنگل میں بسر کئے اور چودہ سال بعد روحانیت کی علامت بن کر واپس لوٹے، اہم بات یہ ہے کہ بن باس کی چودہ سالہ زندگی کے بعد انہوں نے بادشاہوں کی زندگی اختیار کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ رام کیلئے انتہائی غربت اور محل کی زندگی میں کوئی فرق نہیں تھا، ان کیلئے یہ زندگیاں قابل مبادلہ یا Interchangeable تھیں، ہندو تاریخ کی اس روایت کا معمولی سا اثر جدید عہد تک آیا ہے، اس اثر کی ایک علامت موہن داس کرم چند گاندھی تھے، گاندھی جی کی سادگی میں اگر چہ ایک تصنع تھا لیکن بہرحال ان کی ذاتی زندگی انتہائی سادہ تھی، انہوں نے ہندو عوام کو بھی سادگی کا درس دیا، ان کا چرخہ اس سادگی کی ایک علامت تھا، انہوں نے درآمدی چیزوں کے بجائے مقامی چیزوں کے استعمال کا تصور پیش کیا، اس تصور اور اس تصور کے عہد میں غربت کوئی بلند روحانی قدر نہیں تھی لیکن اس کے ایک اخلاقی قدر ہونے کا تصور موجود تھا، اس سے نچلی سطح پر غربت مقدر تھی اور مقدر کی قبولیت کروڑوں انسانوں میں موجود تھی _

صنعتی نظام نے امارت اور غربت کے نئے تصورات تخلیق کئے، صنعتی نظام کے فلسفے اور اس کی نفسیات نے امارت کو صحت اور غربت کو ”بیماری“ بنا دیا، اس نے تقدیر کے فلسفے کو فرسودہ قرار دیا اور اس تصور کو عام کیا کہ انسان اپنی تقدیر بالخصوص معاشی تقدیر خود بناتا ہے، صنعتی نظام لادینیت کے ساتھ طلوع ہوا تھا اور اس نے انسانی خواہشات کو بے لگام بنا دیا، اس صورت حال نے مجموعی طور پر تعیش کو ”ضرورت“ بنا دیا اور تعیش کی ہر خواہش ”مقدس“ بن گئی، کمیونزم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک شدید رد عمل تھا، کمیونزم نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کا ارتکاز ہے اور یہ ارتکاز استحصال کا سبب ہے چنانچہ اس نے امارت اور غربت کو پورے معاشرے میں مساوی طور پر تقسیم کرنے کا تصور پیش کیا لیکن کمیونزم کا مسئلہ یہ تھا کہ اس نے معاشیات کو زندگی سے جزو کی سطح سے اٹھا کر زندگی کا کل بنا دیا، جس سے انسان کی پوری روحانی، نفسیاتی اور جذباتی زندگی نظر انداز ہوگئی، کمیونزم خود نظام سرمایہ داری کا ایک نظریہ تھا جس کی اقدار یا ایمانیات نظام سرمایہ داری کی اقدار اور ایمانیات ہی تھیں یعنی آزادی، مساوات اور ترقی، صرف ان کے حصول کے طریقوں میں اختلاف تھا لہٰذا روس کے لوگوں کو آزادی اور ترقی کا لبرل نظریہ، فری مارکیٹ کا فلسفہ زیادہ بہتر نظر آیا تو کمیونزم پر زوال کی رات آگئی حالانکہ سرمایہ داری کے کمیونسٹ نظریے کی جگہ سرمایہ داری کے لبرل نظریے نے لے لی، سرمایہ داری پھر بھی قائم رہی، کمیونزم کی یہی کمزوری بالآخر اس کی موت کا سبب بنی، کمیونزم کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اس نے سرمایہ دار طبقے یا بورژوا طبقے کے خلاف رد عمل پیدا کیا لیکن خود پولٹ بیورو اور کمیونسٹ پارٹی مراعات یافتہ طبقات بن کر کھڑے ہوگئے، ان کے پاس بادشاہوں جیسی اندھی طاقت تھی، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں جیسا اقتدار گو کہ یہ اقتدار طاقت اور سرمایہ انہوں نے اجتماعیت کی فلاح و بہبود کےلئے جمع کیا تھا اور اجتماعیت کو اس سے مساوی طور پر فائدہ بھی پہنچا حکومت کی سطح پر معاشی منصوبہ بندی کا طریقہ جو تاریخ انسانی میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا کامیاب رہا _

۱۹۷۴ء تک روس کی مجموعی قومی پیداوار اور ترقی امریکہ اور تمام مغربی ممالک سے زیادہ تھی، روسی صدر ”پورڈ گونی“ نے ترقی کی اس مسلسل رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ ہم امریکہ کو اس کی سر زمین میں دفن کر دیں گے لیکن وہ بھول گئے تھے کہ ”آزادی، مساوات اور ترقی کا عقیدہ“ کمیونسٹ اجتماعیت کی قبر کھود رہا ہے، کئی سال تک مسلسل ترقی کے باوجود روسیوں کی زندگی میں وہ آزادی، وہ مزے، وہ لذتیں، وہ تنوع، وہ رنگا رنگی اور وہ چٹخارے نہیں تھے جو لبرل مغربی معاشروں میں ٹی وی کی آنکھ سے ہر روسی کو نظر آ رہے تھے، روس میں پلاننگ کے تحت معیشت کا نظم و نسق ریاست کے ہاتھ میں تھا، نجی شعبہ کے بجائے قومی شعبہ ترقی کا ذمہ دار تھا اور تقسیم دولت کا نظام ہر شخص کی ضرورت کے مطابق مقرر کیا گیا تھا لہٰذا ایجادات اور اشیاء میں تنوع نہیں تھا اور اس کی تقسیم اہلیت کے بجائے ہر شخص کی باری پر منحصر تھی، مساوات اور ضرورت کے اصول نے لوگوں کی آزادی اور لذت پر قدغن عائد کی، ایک قسم کے صابن، ایک قسم کی روٹی، ایک قسم کے مکان اور ایک قسم کی گاڑی وہ بھی نمبر آنے پر ملے گی، اس نظام میں فرد اجتماعیت کی خاطر قربانی دینے پر مجبور تھا لیکن سوشل ازم کا اصول تو آزادی تھا مگر فرد کی نہیں اجتماعیت کی آزادی تو لازماً یہ آزادی انفرادی آزادی کو متاثر کر رہی تھی، یہ سوشل ازم اور آزادی کے عقیدے کا خلقی، فطری تضاد تھا جو اس عقیدے میں مضمر تھا، جب آزادی قدر، ایمان اور اصل ہے تو میں اپنی آزادی دوسرے کی آزادی کیلئے کیوں قربان کردوں اس کا صلہ کیا ہے؟ چونکہ روسیوں کے مذہب سوشل ازم میں آخرت، خدا، روز حشر اور جنت و جہنم وغیرہ کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا، یہ دنیا بس یہی ہے اور مرتے ہی یہ دنیا ختم ہو جائے گی تو ایک روسی اپنی انفرادی آزادی کی قربانی ایک اجتماعی آزادی کیلئے کیوں دے؟ اپنی لذت کو ترک کرکے دوسرے کیلئے اذیت کیوں برداشت کرے؟ اس بات پر کیوں خوش ہو کہ میری قربانی سے دوسرے کو خوشی ہوگی اور دوسرے کی زندگی بہتر ہوگی؟ لہذا روسیوں کو سوشل ازم کا اصول کہ ”ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق ملے گا“ پسند نہیں آیا کیونکہ یہ اجتماعیت کےلئے انفرادی قربانی اور انفرادی آزادی (Individual Freedom) پر مبنی ظالمانہ اصول تھا جو آزادی (Freedom) کے اصول کے منافی تھا، ظاہر ہے جب آزادی زندگی کا مقصد ہے تو محدود، مقید، مسدود، متعین آزادی کے مقابلے میں لا متناہی، مطلق، لا محدود آزادی کا تصور زیادہ بہتر ہے لہٰذا روسیوں کو اجتماعی آزادی کے سوشلسٹ اصول کے بجائے لبرل ازم کا اصول کہ ”ہر شخص کو اس کی استعداد، اہلیت کے مطابق ملے گا“ پسند آیا لہٰذا Each According To His Need کا اصول شکست کھا گیا اور Each According To His Effeciency کا اصول روس میں قبول کر لیا گیا اصلاً آزادی کے عقیدے نے ہی اجتماعی آزادی کے سوشلسٹ عقیدے اور سرمایہ دارانہ تصور کو شکست دے کر انفرادی آزادی کے سرمایہ دارانہ تصور کو قبول کر لیا لہٰذا روسی لوگوں نے سوشلسٹ نظام معیشت کے مقابلے پر لبرل نظام معیشت کو پسند کیا جہاں تنوع (Diversity) زیادہ تھا اور لذتوں کی تکمیل کے آزادانہ مواقع بھی زیادہ تھے لہذا روسیوں کو اور مشرقی یورپ کے سوشلسٹوں کو لبرل نظام معیشت کی آزادی سوشلسٹ نظام معیشت کی آزادی کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور برتر نظر آئی، جب ”عقیدہ“ آزادی ہے، ایمان و یقین آزادی پر ہے تو آزادی کے بہترین، موثر ترین تصور کو قبول کرنا چاہیے، یہ ایک عقلی و منطقی بات ہے، مغرب، روس، چین بلکہ تمام سیکولر دنیا عقلیت کے اصول پر ہی ہر فیصلہ کرتی ہے لہٰذا روس اور مشرقی یورپ نے ”آزادی کے لبرل تصور“ اور ”آزادی کی لبرل معیشت“ کو قبول کر لیا، اس طرح مغرب نے روسی سوشلزم کو عملی بنیادوں پر ”آزادی کے عقیدے“ کے ذریعے ہی شکست سے ہمکنار کر دیا، حیرت کی بات یہ ہے کہ کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں نے اس شکست کے باوجود ”آزادی کے عقیدے“ کو ترک کرنے کے بجائے اسے ”عقیدہ“ کی سطح پر برقرار رکھا کیونکہ ہر عقیدے کی ایک قیمت ہے اگر عقیدے پر ایمان کے نتیجے میں سوشلسٹ ریاست ختم ہوجاتی ہے تو ہوجائے عقیدہ ترک نہیں کیا جائے گا __

جرمن ادیب ”تھامس مان“ نے کہا تھا کہ بیسویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی لیکن اکیسویں ویں صدی کے آتے آتے منظر نامہ تبدیل ہوگیا ہے اور اب انسانی تقدیر معاشی اصطلاحوں میں لکھی جا رہی ہے، معاشیات انسان اور اس کی زندگی کا اول و آخر بن گئی ہے، اب امارت ایک جنت ہے اور غربت ایک جہنم، امارت ایک عظیم ہنر ہے اور غربت ایک بہت ہی بڑا عیب، امارت مجسم خیر ہے اور غربت مجسم شر، امارت علم ہے اور غربت جہالت، امارت ذہانت ہے اور غربت کند ذہنی، امارت شرافت ہے اور غربت رذالت، امارت میں نام ہے نسب ہے، غربت میں گمنامی ہے بے بسی ہے، امارت ترقی ہے، غربت پسماندگی، اب غربت میں کوئی روحانی یا اخلاقی قدر نہیں، اس میں کوئی شعوری یا اختیاری عمل نہیں، اب قناعت کا مطلب حماقت ہے اور قناعت کرنے والا دراصل زندگی کی دوڑ میں اپنی کسی نہ کسی نا اہلیت کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والا ہے، یہ حقائق مذہب کا انکار ہیں، تہذیب کا انکار ہیں، انسان اور اس کی انسانیت کا انکار ہیں، علم اور شرافت کی پوری روایت کا انکار ہیں اور ان حقائق کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی تاریخ ایک انتہائی غیر تاریخی عہد میں داخل ہوگئی ہے __

۲۰۱۳ء میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے موقع پر انقلابی، دینی، مذہبی، سیکولر جماعتوں کے منشوروں کا مطالعہ اس دعوے کی تصدیق کرے گا، ہر منشور صرف اور صرف غربت کے خاتمے اور خوشحالی کی نوید سنا رہا ہے، ہر منشور صرف ترقی کے مغربی منہاج کی تائید، تصدیق و توثیق بن گیا ہے، اس میں آخرت، خدا، روحانیت کا کوئی ذکر نہیں ہے، ان منشوروں میں لوگوں کے معاشی، مادی مفادات کی تکمیل کے خیالی دعوے کئے گئے ہیں، جن کا عملاً حصول پاکستان کے موجودہ معاشی تناظر میں اگلی کئی صدیوں تک ممکن نہیں اگر یہ جماعتیں منشور میں ایسے مادی وعدے شامل کرتیں جن کا عملاً حصول ممکن ہوتا تب بھی مفادات کی سیاست ہی فروغ پاتی اور حرص و حسد و ہوس کی عمومیت میں اضافہ ہوتا، حقوق کی سیاست (Right base politics) کی بنیاد پر جب بھی انتخابی سیاست کو چلایا جائے گا تو حرص و حسد و ہوس، انفرادی، اجتماعی اور معاشرتی سطح پر قبولیت حاصل کرے گی اور لوگ نفس کے مطالبات سے اوپر اٹھ کر کسی اور قسم کے تہذیبی، روحانی، اخلاقی، اقداری مطالبات کے بارے میں کبھی غور ہی نہیں کر سکتے، عالم اسلام میں دن بہ دن اخلاقیات، روحانیات، رویوں، رشتوں، تعلقات اور معاملات میں زوال کا اصل سبب حقوق کی سیاست ہے، منشور بنیادی حقوق غربت کو ایک لعنت کے طور پر پیش کرکے ہر شخص کے ذہن میں راتوں رات امیر بن جانے کا التباس پیدا کر دیتا ہے، لوگ نعرے، جلوس اور جلسے کو اپنی معاشی، اخلاقی اور روحانی ترقی کا ضامن سمجھ لیتے ہیں، یہ محض التباس ذہنی (Mind Illusion) ہے، جس میں عہد حاضر کا ہر فرد گرفتار ہے، اصلاً ”حقوق کی سیاست“ اور ”مطالبات کا طرز زندگی“ اختیار کرنے کے نتیجے میں ہر انسان ایک مادہ پرست، مفاد پرست اور حاسد و حریص فرد میں تبدیل ہوجاتا ہے، حرص و ہوس ہی اس کی زندگی کے اہداف بن جاتے ہیں، انسان اپنے ذاتی مفادات، معاشی ثمرات اور مادی خواہشات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کے قابل ہی نہیں رہتا لہٰذا ہر انسان مغربی اصطلاح میں افادہ پرست (Utilatarian) ماده پرست (Materialist)، لذت پرست (Hedonist) مغربی معاشی اصطلاحات میں (Homo Economicus)، لذت پرست جانور (Pleasure Seeking Animal) صرف اپنے منافع میں اضافے کا خواہش مند عامل (Profit maxmizing agent) بن جاتا ہے لہٰذا عوام سے لے کر خواص تک زندگی کو برتنے کا صرف ایک اصول سنہری اصول بن جاتا ہے جسے ہم نتائجیت پرستی (Pragmatism) کہتے ہیں یعنی ہر فیصلے کی بنیاد صرف یہ اصول ہوگا کہ ”اس فیصلے سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مادی فائدہ پہنچنا چاہیے“ چاہے اس کے نتیجے میں اقدار، روایات، اخلاقیات، مذاہب، تہذیب سب کا خاتمہ ہوجائے _

جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں، ایک ریاست میں دو بادشاہ، ایک گھر میں دو سربراہ نہیں ہو سکتے بالکل اسی طرح کسی تہذیب میں دین اور تاریخ میں دو تصورات الخیر بیک وقت رائج نہیں ہوسکتے، ہر تہذیب، دین اور تاریخ کا صرف ایک ”تصور خیر“ ہوتا ہے اور یہی ”تصور خیر“ زندگی کے ہر شعبے، گوشے کا احاطہ کرتا ہے، زندگی طواف کی مانند ہے جس میں معنویت اس امر سے پیدا ہوتی ہے کہ طواف کا مرکز کیا ہے؟ ہر تہذیب و دین کا ایک ہی مرکز ہوتا ہے جو خیر اعلیٰ (Suprem Good) کہلاتا ہے، اسلامی علمیت میں یہ خیر مطلق خیر اعلیٰ التوحید یعنی بندگی ہے، مغرب کی علمیت میں یہ آزادی ہے اور آزادی کا مطلب ان کے یہاں صرف یہ ہے کہ زندگی سے پابندیوں اور رکاوٹوں کا کم ہوتے چلے جانا Freedom is the obsence of Limitation انسان کی زندگی سے ہر قسم کی مذہبی، اخلاقی، سماجی، رواجی، تہذیبی، اقداری، اجتماعی، قبائلی، خاندانی اور تاریخی پابندیاں ختم ہوتی چلی جائیں تو آزادی کا دائرہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور انسانی لذت میں اضافہ بھی ہوتا جاتا ہے، منشور حقوق انسانی اور حقوق کی سیاست آزادی اور لذت کے حصول کو جمہوری طریقے سے عصر حاضر میں ممکن بنانے کا موثر اور متحرک ترین طریقہ ہے __