عالمی تاریخ ثقافت کے ممتاز مؤرخ ای فریڈل
(E.Friedell)
نے جدیدیت اور جدید انسان اور جدت پسندی کی تاریخ پیدائش اور اسباب متعین کرتے ہوئے لکھا ہے
The year of conception of the modern person is the year 1348 the year of the black death. ۱۳۴۸ء جدید مغربی انسان کا نقطہ آغاز تھا، وہی جو کالی موت (Black Death) کے سال سے موسوم ہے، جدیدیت کی تاریخ پیدائش کے تعین اور اسباب پیدائش کے نقطہ پر تبصرہ کرتے ہوئے The Development Dictionary کے شریک مصنف Marianne Gone Meyer اس جملے کی تشریح میں عجیب و غریب بات لکھتے ہیں اور اس موقف کو درج بالا مؤرخ سے منسوب کرتے ہیں _
Modernity therefore for him begins with a sever illness of European Humanity.
بہر طور! جدیدیت اور جدت پسندی یورپی انسانیت کو لاحق سنگین بیماری سے بر آمد ہوئی _
اہل مغرب کی گندگی اور غلاظت
جس جدیدیت (جدید ذہن، جدید انسان، جدید سائنس) کا آغاز ایک خطرناک بیماری، گندگی، تعفن اور غلاظت کے بطن سے ہوا ہو، وہ خود کس قدر آلودہ ہوگی، اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا، یورپ میں کالی موت (Black Death) کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا، وہ اس طرزِ زندگی کا لازمی نتیجہ تھا جو رہبانیت کے تحت مذاق عوام بن گیا تھا، لیکی کی کتاب ”تاریخ اخلاق یورپ“ جس کا ترجمہ مولانا عبدالماجد دریابادی مرحوم نے کیا ہے، اس کتاب کے بعض ابواب ہمیں اس تاریخ اور پس منظر سے بخوبی آگاہ کرتے ہیں جس کے باعث اہل مغرب و یورپ طہارت اور پاکیزگی سے محرومی اور غلاظت میں لوتھڑے رہنے کو ہی روحانی ارتقاء کا ذریعہ سمجھتے تھے، آج بھی مغرب میں پانی سے طہارت اور پاکیزگی کے بجائے بغیر طہارت یا زیادہ سے زیادہ کاغذی طہارت (Paper Drycleaning) پر اکتفا کیا جاتا ہے، برطانیہ سمیت یورپ کے تمام ممالک میں اگر آپ رفع حاجت کےلئے بیت الخلاء جائیں تو وہاں نہ لوٹا ہوگا، نہ پانی اور نہ مسلم شاور کہ آپ رفع حاجت کے بعد پانی سے خود کو پاک کر سکیں، پانی لینے کےلئے آپ کو باہر آنا ہوگا جہاں ہاتھ دھونے کےلئے تو نل موجود ہے لیکن پانی اکٹھا کرنے کےلئے برتن موجود نہیں لہٰذا اکثر مسلمان طہارت کےلئے برتن اپنے ساتھ رکھتے ہیں، نوے فیصد یورپی لوگ بغیر آبی، خاکی اور کاغذی استنجے کے باہر نکل آتے ہیں، بہ مشکل دس فیصد ایسے ہوں گے جو کاغذ سے خشک کاری پر اکتفاء کرتے ہوں، مغربیوں کی طبیعت اس معاملے میں نہایت کھر دری ہے، بلادِ مغرب میں اہل مغرب غسل سے شغف نہیں رکھتے، جسم کی پاکی اُن کے یہاں اہم نہیں بلکہ مختلف عطریات اس کا متبادل ہیں، جب کوئی مسلمان ان مغربی خطوں میں جاتا ہے تو پریشان ہوجاتا ہے، یہی حالت غسل کی ہے، مشرق میں سفر کرنے والے تجار، مسافر اور سیلانی و سیاح اس بات کو واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ مغرب کی سرحدوں میں داخل ہوتے ہی مشرق و مغرب میں دو بنیادی فرق نظر آتے ہیں، مشرق میں شاذ و نادر ہی اپنے خرچ پر کھانا پڑتا ہے، مہمانوں اور مسافروں کو مشرق کی سر زمین کے، خصوصاً اس کے روایتی، مذہبی اور مسلم دیار و امصار میں دعوتوں سے فرصت نہیں ملتی اور طہارت کےلئے ہر جگہ پانی اور لوٹا دستیاب ہوتا ہے لیکن مغرب میں خورد ونوش کا مکمل انتظام خود کرنا پڑتا ہے، دعوت کی روایت نظر نہیں آتی اور طہارت کےلئے پانی دستیاب نہیں ہوتا، پانی ہوتا ہے تو لوٹا نہیں ملتا اور مغرب کے لوگ مشرق کی طرح غسل سے شغف نہیں رکھتے، خشک کاری (ڈرائی کلینک) ہی ان کا وظیفہ حیات ہے، یہ جدید و متمدن مغرب کا تازہ احوال ہے لیکن چودہویں صدی میں اس خطے کا کیا حال ہوگا؟ انتہاء یہ ہے کہ مغرب والوں کی عبادت گاہ، کلیساء بھی مغرب کے رخ پر نہیں ہوتی، ہوا اور روشنی کا مناسب فطری انتظام بھی نہیں ہوتا لہذا کلیساء کو روشن رکھنے کےلئے موم بتیوں کا انتظام کیا جاتا تھا __
ایک تحقیق کے مطابق موم بتیوں کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے روئے زمین پر کلیساء وہ واحد جگہ تھی جہاں سب سے زیادہ آلودگی ہوتی تھی، ظاہر ہے کہ یورپ کے تنگ و تاریک گھروں میں روشنی سے محروم طرزِ تعمیر و طرز زندگی اور صفائی سے غفلت اس کالی خونی موت (Black Death) کا سبب بنی جس میں تاریخ دانوں کے مطابق سولہ کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوئے لیکن اسی بیمار یورپ میں کروڑوں لوگ زندہ بھی بچ گئے، بیماری اُنہیں موت کے منہ میں لے جانے کا سبب نہ بن سکی، مرے گا وہی جس کی زندگی کا وقت پورا ہوگیا اور جن کی زندگی باقی ہے وہ کیسے ہی کٹھن حالات اور خطرناک بیماریوں میں گھرا ہو، اللہ تعالیٰ اسے موت کے منہ سے نکال کر آبِ حیات تک لے جائیں گے لہذا یہ سمجھنا کہ اگر طاعون کا علاج اس دور میں دریافت ہو جاتا تو سولہ کروڑ لوگ بچ جاتے، تقدیر الہی پر عدمِ ایمان سے عبارت ہے اگر طاعون کی دعا موجود ہوتی تب بھی وہ سولہ کروڑ لوگ ضرور مرتے جن کی موت لکھ دی گئی تھی، کوئی دواء لکھی موت ٹال نہیں سکتی، ہر مرض کا علاج ممکن ہے سوائے بڑھاپے اور موت کے، ان دو امراض کا علاج ممکن نہیں اور یہ اللہ تعالی کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی، طاعون کی بیماری تاریخ کے مختلف ادوار میں دنیا کے تمام خطوں میں وقتاً فوقتاً پھیلتی رہی ہے لیکن جس طرح طاعون نے یورپ میں تباہی مچا دی، ایسی تباہی دنیا کے کسی خطے میں نہیں آئی، اس کی ایک بڑی وجہ یورپی لوگوں کا طرزِ زندگی اور صفائی کی خراب صورت حال تھی تو دوسری اہم ترین وجہ یورپ میں کلیساء کے پوپ کے حکم پر بلیوں کا قتل عام تھا، پوپ اور پادریوں کا خیال تھا کہ بلّیاں جادو گروں کا ہدف ہیں اور اُن کے ذریعے جادو کا اثر عام کیا جاتا ہے لہٰذا بلیوں کے خلاف مذہبی نفرت نے بلیون کے قتل عام کو ممکن بنا دیا لہذا طاعونی چوہوں کو بلیوں کی مزاحمت نہیں ملی اگر بلّیاں کثرت سے ہوتیں تو یورپ پر طاعون کا اس قدر خوف ناک حملہ نہ ہوتا، اس کے علاوہ مختلف مؤرخین نے طاعون کی دیگر وجوہات بھی بیان کی ہیں جو آگے آ رہی ہیں، مغرب کا یہ خیال کہ اس نے موت کو شکست دے دی، طاعون، چیچک کا علاج دریافت کر لیا اور لوگوں کی زندگی بچا لی اور ان کی عمریں بڑھا دیں، یہ محض ان کی خام خیالی ہے، عمر کم یا زیادہ ہونے کا فیصلہ آسمانوں پر ہوتا ہے، جس مغرب کو سولہ کروڑ لوگوں کے مرنے کا صدمہ تھا، اسی مغرب کو اب اس بات کا غم شدت سے کھائے جا رہا ہے _
گذشتہ سو برس میں دنیا کی آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، اس کے باعث وسائل کم پڑ جائیں گے لہذا یہی مغرب جدید اسلحہ اور جنگوں، کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے انسانیت پر مسلسل ہلاکت مسلط کر رہا ہے، آبادی کم کرنے کی خطرناک دوائیں ایجاد کرکے رحم مادر میں قتل عام کا ارتکاب کر رہا ہے، اِسقاط حمل کے ذریعے اربوں انسانوں کو قتل کر رہا ہے اور سی ٹی اسکین کے ذریعے انسانوں کو دنیا میں آنے سے پہلے دوسری دنیا میں پہنچا رہا ہے، اس کا خیال ہے کہ مغرب کی ایجاد کردہ دواؤں کے باعث بیماریاں ختم ہوگئیں لہٰذا لوگ اب کم مر رہے ہیں زیادہ جی رہے ہیں لہٰذا جس طرح پہلے انسانوں کو مرنے سے بچانا اس کا فرض تھا، اب انسانوں کو مار کر کم کرنا بھی اسی کا فرض ہے یعنی خدائی کا خناس ابھی تک مغرب کے ذہن سے خارج نہیں ہوا، یہی خدا آبادی کی روک تھام کی فکر میں مصروف عمل ہے، جس کے باعث چین اور ہندوستان میں لڑکیوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے، چین میں ”ایک بچے“ کے فلسفے کے باعث لڑکی کی پیدائش کو سی ٹی اسکین کے ذریعے روک دیا جاتا ہے، ہندوستان میں بچیوں کی قبل از ولادت ہلاکت کی صورت حال اس حد تک پریشان کن ہے کہ اب وہاں رحم کی شناخت کےلئے سی ٹی اسکینر کے استعمال پر ہی پابندی عائد کر دی گئی ہے، کالی موت یا Black Death ، Black Plague یا Great Pestilence کا اصل مرکز و محور یورپ کیوں رہا اور اس نے کس طرح یورپ کو برباد کیا؟ اس کی تفصیل انسائیکلوپیڈیا Wikipedia سے پڑھئے! یہ مضمون چار نومبر 2009ء کو انٹرنیٹ سے حاصل کیا گیا تھا __
مغرب میں یہ سیاہ موت Black Death جدید سائنسی انقلاب کا عنوان بن گئی، کالی موت نے زندگی کی نئے سرے سے نئی تفہیم پیدا کی جس کا بنیادی وصف تحفظِ حیات (Self Preservation of Life) قرار دیا، زندگی سب سے اہم ترین واقعہ ہوگئی اور موت قابل نفرت شے قرار پائی، قرآن نے اہل کتاب پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا _ فَتَمَنَّوُا المَوتَ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ (البقرة: ۹۴) ”اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو“ اہل کتاب ہزار برس جینے کی آرزو کرتے تھے اور خود کو خدا کا مقرب خاص بھی سمجھتے تھے، قرآن نے طنزاً کہا کہ طویل عمر کی خواہش میں یہودی، مشرکین سے بھی بد ترین ہیں، کالی موت نے اہل مغرب میں زندگی سے بے پناہ محبت کا جذبہ راسخ کیا، جدیدیت کا خاص وصف مالک الملک کی خالقیت کا انکار اور اُلوہیت انسانی کا اعلان ہے، انسان خود خدا ہے کیونکہ نطشے کے مطابق خدا مر گیا ہے (نعوذ باللہ) لہذا اس کی خالی جگہ انسان نے پر کردی ہے، اس فلسفے کا نقطہ عروج جسم انسانی کو خدا کے تصرف سے نکال کر انسان کی ملکیت (Body is Property) قرار دینا ہے یعنی خدا کو خدا کے سپرد کر دینا؟ جدیدیت میں انسان فاعل خود مختار (Self Autonomous Being) ہے جو کسی کو جواب دہ نہیں، وہ کسی خارجی مقتدرہ (External authority) کے زیر اثر نہیں، اس کو روشنی اور علم اندرون (Inside) سےعطاء ہوتا ہے، اس کےلئے اسے باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں لہذا انسان خود خدا بن گیا اور اپنے فیصلے خود کرنے لگا لہذا جسم ہر فرد کی ملکیت ہے، وہ اس سے جو کام لینا چاہیے لے سکتا ہے، اسی لئے مغرب میں طوائف کی جگہ Six worker آ گئی ہے، جسم عورت کی ملکیت ہے خدا کی نہیں لہذا عورت جسے چاہیے اپنا جسم ہبہ کر سکتی ہے، عطیہ کر سکتی ہے، بیچ سکتی ہے، یہ آزادی کی قدر (Value of Freedom) کا تقاضا ہے، ہر وہ رواج اور روایت جو اس آزادی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرے، حکومت کا فرض ہے وہ اسے ختم کر دے __
مغرب میں کام وہ ہے جس کے نتیجے میں پیسہ حاصل ہو، اس لئے گھریلو کام میں مشغول عورتوں کو وہ کارکن Worker کے زمرے میں شامل نہیں کرتے لیکن گھر سے نکل کر کام کرکے پیسہ کمانے والی عورت کو وہ ورکر قرار دیتے ہیں اور مغرب میں ایسا کام جس کا پیسہ نہ ملے، شرمناک ترین اور بے کار کام ہے، جسم کو انسانی ملک قرار دینے کے نتیجے میں ایک نئے تصورِ حیات نے ظہور کیا، اس کے نتیجے میں جدید طبّی علوم نے محیر العقول ترقی کی، ظاہر ہے جب جسم ہی سر چشمہ خیر ہو، جسم ہی معیشت کا ذریعہ ہو، جسم سے ہی عیش و عشرت وابستہ ہو اور جسم کے بغیر حیاتِ دنیا کی کسی لذت و رونق کا تصور ہی نہ ہو اور خدائی جسم سے متعلق ہو جائے تو جسم کی پرورش و نشو و نما اور تحفظ ہی زندگی کا اہم ترین مقصد بن جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں مغرب نے انسان کو خدا کے درجے پر فائز کر دیا، وہ خود خدا ہے لہذا اپنے جسم کے معاملات کا فیصلہ کرنے کا کلّی طور پر مجاز ہے، زندگی کی طرف والہانہ لپکنے کے بجائے حکم رسول کا اتباع ہے لیکن عالم اسلام میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ (جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھے، لشکرِ اسلام کے سپہ سالار تھے) کی شہادت ایک نئے صبح و شام کا دروازہ کھولتی ہے، وہ شام کے محاذ پر تھے کہ طاعون پھیل گیا، اُنہیں کوچ کا مشورہ دیا گیا تو آپ نے انکار کر دیا اور کہا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ جس علاقے میں وباء پھیل جائے، وہاں سے ترکِ سکونت نہ کرنا لہذا میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے خلاف عمل نہیں کر سکتا، ایک مسلم کےلئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مطابق عمل میں زندگی بچانے کا سوال غیر اہم ہو جاتا ہے اور اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی حکمت واضح ہو جاتی ہے، متعدی بیماری کی آفت زدہ بستی سے نقل مکانی، اس یقین کا دروازہ کھولتی ہے کہ بیماری کے جراثیم، ایک شخص کے ذریعے دوسری بستی اور دوسری دنیا تک منتقل ہوسکتے ہیں لہذا اپنی زندگی کو خدا کا فضل سمجھ کر دوسروں کی زندگی بچانے کےلئے نقل مکانی نہ کرنا اہم فریضہ بن جاتا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی رکھی ہے تو طاعون کی بیماری میں رہنے سے بھی اس بیماری سے محفوظ رہتے ہیں، ایک مؤمن کےلئے اپنی زندگی کے تحفظ سے زیادہ اہم شے حکم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی اور اس اتباع میں دوسرے کی زندگی کا تحفظ ہے، خواہ اس کوشش میں اس کی جان چلی جائے، ایک مسلمان کےلئے جب بھی زندگی اور حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان انتخاب کا مرحلہ در پیش ہو تو وہ حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم پر عمل کرنے کو زندگی سمجھے گا اور اس راہِ عمل میں خونِ شہادت اسے زندگی سے زیادہ عزیز ہوگا، اصل زندگی تو وہ ہے جو اتباعِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں بسر ہو، وہ زندگی جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی نا فرمانی میں گزرے، اس موت سے کس طرح بہتر ہو سکتی ہے جو آقائے کائنات کی اتباع میں قبول کی جائے __
اسی نقظہ نظر کا نقطۂ کمال سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ فیصلہ تھا جو لشکرِ اُسامہؓ اور مرتدین سے جنگ کے موقع پر سامنے آیا، جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جانب سے مصلحت و حکمت کے تقاضوں کے تحت سالارِ لشکر اُنیس سالہ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو معطل کرنے اور لشکر کی روانگی کو عارضی طور پر ملتوی کرنے کا مشورہ دیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، لشکر اسامہ کی روانگی کا فیصلہ عرب کے بگڑے ہوئے حالات اور زمینی حقائق (Ground Realities) کے تناظر میں صحابہ کرام اور مہاجرین اوّلین پر بہت گراں گزرا، فشق ذلك على كبار المهاجرين الأولين (حیاۃالصحابه: ج ۱ ص ۴) عقل کے دائرے میں صحابہ کی رائے بہ ظاہر درست معلوم دیتی ہے صحابہ نےحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ لوگ لشکرِ اُسامہ میں جا رہے ہیں وہ مسلمانوں کے چیدہ اور منتحب افراد ہیں، عرب کی حالت آپ کے سامنے ہے، ایسی حالت میں جمعیت صحابہ کو متفرق کرنا مناسب نہیں لیکن ثانی اثنین رضی اللہ عنہ کا جواب تھا لوخطفتني الكلاب والذئاب لانفذتُه كما أمر به رسول الله صلى الله عليه و سلم ”اگر کتے اور بھیڑیے مجھے اُچک لے جائیں تب بھی میں لشکر کو اسی طرح روانہ کروں گا جس طرح کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم فرما گئے ہیں“ انصار نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی خلیفہ اوّل تک یہ بات پہنچائی کہ اگر روانگی لشکر ضروری ہے تو اُنیس سالہ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ کے بجائے کسی زیادہ تجربہ کار اور سن رسیدہ شخص کو سالار لشکر مقرر کیا جائے، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ انصار کا یہ پیغام پہنچا چکے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بے تاب ہو کر کھڑے ہوگئے اور تیزی سے فرمایا تأمرني أن أعزله ”اے خطاب کے بیٹے! تجھ کو تیری ماں گم کرے، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مقرر فرمایا ہے اور تم حکم کرتے ہو کہ میں ان کو معزول کردوں“ بظاہر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ رویہ عقلی اور زمینی حقائق، تعقل، مصلحت، حکمت، دانائی، سائنسی طریق کار، اعداد و شمار کی میزان اور زیرکی کے تقاضوں کے خلاف نظر آتا ہے لیکن تاریخ میں درج ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس عزم و توکل و اطاعت اور حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی برکت کا ایسا ظہور اس طرح ہوا کہ یہ لشکر جس قبیلے کی طرف سے گزر جاتا تھا، اس پر ایسا رعب پڑتا کہ وہ اسلام کی طرف یہ کہتے ہوئے پلٹ آتا کہ اگر اُن کے پاس قوت نہ ہوتی تو اتنی بڑی جمعیت ان کے پاس سے نہ نکلتی، لشکر سے فراغت سے بعد اہل مدینہ کو ایک نئی آزمائش اور امتحان کا سامنا تھا، مرتد قبائل نے مدینہ منورہ کو گھیر کر اپنا قاصد اس شرط کے ساتھ بھیجا کہ ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے آپ نے مشورہ کیا، سب کی رائے تھی کہ اس وقت نرمی مناسب ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا يا خليفة رسول الله! تألف الناس وارفق بهم ”لوگوں کے ساتھ نرمی اور اُلفت کا برتاؤ کیجیے!“ جواباً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”اے عمر! تم جاہلیت میں تو بہادر تھے اور اسلام میں آ کر کمزور ہوگئے، وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اور دین کمال کو پہنچ گیا کیا میری زندگی ہی میں دین ناقص کر دیا جائے گا (ہر گز نہیں) واللہ! فرض زکوۃ سے اگر یہ رسی کا ٹکڑا بھی دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رائے کے بر عکس جہاد کا حکم دیا کیونکہ آپ کی نظر میں وہ ریاست، سیادت، سیاست، تدبیر، حکومت اور طاقت جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل سے قاصر ہو، اس کا ہونا اور نہ ہونا دونوں برابر ہیں، مسلمان حکم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعمیل کےلئے زندہ رہیں اگر یہ نہ کر سکیں تو ان کی زندگی کی کسی کو ضرورت نہیں ہے، اُنہیں تعمیل حکم کی راہ میں جان دے دینی چاہیے __
یہ وہ مابعد الطبیعاتی، علمیاتی، کونیاتی، ایمانی اور اعتقادی فرق ہے جو عالمِ اسلام کو جدید عالم غرب سے بالکل جدا کرتا ہے، اس رویے کے نتیجےمیں دو مختلف انسان، دو مختلف تہذیبیں، دو مختلف طریقے، دو مختلف ڈسکورس، دو مختلف مزاج، دو مختلف رویے، دو مختلف مناہج اور دو مختلف اقالیم وجود پذیر ہوتے ہیں، ایک حکمت اسلامی کہلاتا ہے دوسرا جدید سائنس اور اس کا ارتقاء، طاعون کی ایک وباء اُمتِ مسلمہ پر کس طرح اثر انداز ہوئی؟ اس کے کیا مضمرات ہوئے؟ اور طاعون کی دوسری وباء نے مغرب کو کس طرح تبدیل کر دیا؟ طاعون میں حضرت عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی، آپ کی عظمت اور بلندی کا اندازہ محض اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو ”امین الامت“ کو بغیر کسی مشورے کے خلافت سپرد کر دیتا، اس قدر جلیل القدر ہستی کی شہادت کے باوجود پورے عالمِ اسلام میں سائنسی تعقل وترقی Scientific Rationality and Development کی لہر نہیں اُٹھ سکی جس نے کالی موت (Black Death) کے بعد مغرب کو شدید طور پر متاثر کیا، ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا تعلق مابعد الطبیعاتی مباحث سے جڑا ہوا ہے، جسے آسان فہم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے _
مغرب میں جدید طبی ترقی کا براہِ راست تعلق اسی کالی موت سے ہے، اس مسئلے کی فلسفیانہ تفہیم کیلئے فوکالٹ کی کتاب The Birth of Clinic کا مطالعہ نہایت ضروری ہے جو بعض اہم تاریخی اور فلسفیانہ حقائق سے پردہ اُٹھاتی ہے، اللہ تعالی ہی موت و حیات کا خالق ہے الَّذى خَلَقَ المَوتَ وَالحَيوٰةَ (الملك: ۲) اسلام کا فلسفہ موت جدید سائنس کے فلسفے Cause and Effect علت و معلول پر یقین نہیں رکھتا، موت اَمر ربی ہے، بغیر کسی وجہ، علت، سبب کے بھی آ جاتی ہے اور موت کے ہزاروں اَسباب پیدا ہونے کے باوجود انسان زندہ رہتا ہے، اسے خدائے حی و قیوم زندگی عطاء کرتا ہے، ایک مریض کوئی دوا استعمال نہیں کرتا مگر بچ جاتا ہے، ایک دوسرا مریض عمدہ سے عمدہ دوائیں استعمال کرتا ہے لیکن مر جاتا ہے، زندگی اور موت دواء پر منحصر نہیں، یہ عطیۂ خداوندی ہے، اس کا فیصلہ مخلوق نہیں، خالق کرتا ہے، کسی کو موت مطالبے پر نہیں ملتی اور نہ ہی کسی کی آرزو عمرِ طویل کا سبب بن سکتی ہے، اسی لئے دنیا میں خود کشی کی پچاسی فیصد وارداتیں ناکام ہو جاتی ہیں، تمام اسباب، ذرائع اور وسائل مہیا ہونے کے باوجود اور انسان کی یہ خواہش کہ وہ مرجائے، اس کی آرزو پوری نہیں ہوتی کہ موت اپنے وقتِ مقرر سے پہلے نہیں آ سکتی اور اگر اس کا وقت آ جائے تو وہ ٹالی نہیں جا سکتی، موت انسان کے اختیار میں ہوتی تو ہر خود کشی کرنے والا موت سے ہمکنار ہوتا، کس کو کتنی زندگی دی گئی ہے، یہ خدائے حی لا یموت کے سوا کوئی نہیں جانتا، نہ سائنس نہ ٹیکنالوجی، نہ فلسفہ، نہ فلسفی لیکن مغرب زندگی و موت کو خدا کا عطیہ سمجھنے کے بجائے نظریۂ علت و معلول کا نتیجہ قرار دیتا ہے لہذا پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تمام ڈاکٹر خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، موت کا سبب لازماً لکھتے ہیں اور جب کوئی سبب ذہن میں نہیں آتا تو لکھ دیتے ہیں کہ Cause Unknown (وجہ نا معلوم) یہ جملہ اس ایمان و یقین کا اظہار ہے کہ جدید سائنس کبھی نہ کبھی اس کا سبب بھی دریافت کر لے گی، آئیے! دیکھتے ہیں کہ ترقی کی معراج کا دعویٰ کرنے والی سائنس یہاں کیوں بے بس ہوئی؟ _
بھارت کے دو سکھ بھائیوں کا حادثہ تاریخ سائنس کےلئے عجیب و غریب واقعہ ثابت ہوا، ناسا کے سائنسدان ابھی تک اس حادثے میں بچ جانے والے انسان کی زندگی اور مرنے والے کی موت کے اسباب و علل پر مسلسل تحقیق کر رہے ہیں، دو سکھ بھائی بہتر مستقبل کی تلاش میں ایک شخص کو پیسے دے کر انڈین ایئر لائنز کے ذریعے امریکہ غیر قانونی سفر پر روانہ ہوئے، دونوں امریکی شہری بننا چاہتے تھے، سفر پر بھیجنے والے نے دونوں بھائیوں کو طیارے کے اگلے پہیوں کے اوپر بنے ہوئے خانوں (Boxes) میں ٹھونس دیا، طیارہ جب اڑتا ہے تو اس کے پہیے ان خانوں میں چلے جاتے ہیں، ان بھائیوں نے اس بارے میں کچھ نہ سوچا، طیارہ دہلی رن وے پر دوڑا، پہیے آگ کے گولوں میں تبدیل ہوئے، طیارہ فضاء میں بلند ہوا تو پہیے خانوں میں چلے گئے دونوں بھائیوں کو جلا کر رکھ دیا، ان کی دردناک چیخیں سننے والا کوئی نہ تھا، طیارہ آسمان میں ہزاروں فٹ تک بلند ہو گیا تو نقطہ انجماد کے باعث دونوں بھائی منجمد ہو گئے، طیارہ نیو یارک ائیر پورٹ پر اُترا تو پہیے رن وے پر دوڑنے کےلئے خانوں سے باہر نکلے تو ایک ساتھ دو لاشیں ایئر پورٹ پر گریں، حفاظتی عملے نے لاشیں تحقیقات کےلئے FBI کے سپرد کیں، ایک بھائی مر چکا تھا دوسرا زندہ تھا، ناسا نے دوسرے بھائی کو تحویل میں لے لیا، اسے امریکی شہریت دے دی گئی، اب اس بات کی تحقیق ہو رہی ہے کہ علت و معلول کے فلسفے کے تحت دوسرا بھائی کیسے بچ گیا؟ اللہ موجود ہے اور عقل نے عجز کا اظہار کر دیا __
یہی صورتِ حال امریکہ کی ایک ریاست میں اس وقت پیش آئی جب پندرہ سال سے کومے میں محصور زندگی کے آخری سانس گننے والی عورت کے شوہر نے ہسپتال کی انتظامیہ سے کہا کہ اس عورت کا Ventilator (آکسیجن ماسک) ہٹا دیا جائے تا کہ وہ اپنی وصیت کے مطابق سکون کی موت مر سکے، بیوی کے ماں باپ نے عدالت سے حکم امتناعی کےلئے رجوع کیا، عدالت نے درخواست مسترد کر دی، امریکی قانون کے تحت شوہر کو اس فیصلے کا حق تھا کہ آکسیجن ماسک رکھا جائے یا ہٹا دیا جائے، ماں باپ نے صدر بش سے اپیل کی، صدر بش نے ہنگامی طور پر قانون میں ترمیم کی اور ایک عورت کی زندگی بچانے کےلئے سینٹ کا اجلاس بلائے بغیر قانون نافذ کر دیا اس کاروائی میں تین دن لگ گئے، عورت تین دن تک بغیر آکسیجن ماسک کے زندہ رہی، چوتھے دن عدالت نے ترمیم شدہ قانون کی روشنی میں ماں باپ کے حق میں امتناہی حکم جاری کر دیا ماسک لگا دیا گیا لیکن اگلے ہی دن عورت انتقال کر گئی، آخر کیوں؟ کیا زندگی اور موت کا تعلق دواء، اسباب اور علاج سے ہے؟ یہ اسباب بلا شبہ کسی تکلیف میں کمی تو کر سکتے ہیں کیونکہ ہر درد کی دوا ہے، ہر مرض کا علاج ہے سوائے مرض الموت کے، موت وقتِ مقرر پر آتی ہے __
گزشتہ سال کراچی کا ایک واقعہ اس کی زندہ مثال ہے، تیرہ منزلہ عمارت سے ایک مزدور سر کے بل نیچے گرا، لوگ بچانے دوڑے، سب کا خیال تھا کہ مرگیا ہوگا لیکن چند لمحے بعد وہ اپنے پیروں پر کھڑا تھا اسے خراش تک نہیں آئی تھی، مبارک باد دینے والے یاتھیوں نے اس سے مٹھائی کا مطالبہ کیا وہ سڑک پار کرکے دکان تک گیا، مٹھائی کا ڈبہ لے کر واپس لوٹا تو سڑک پر گاڑی نے اسے ٹکر ماری اور وہ اسی وقت مر گیا __
امریکہ کی ایک ریاست کا مشہور ترین واقعہ لوگ ابھی نہیں بھولے ہیں، اس واقعے پر مبنی فلم نے امریکہ میں ریکارڈ قائم کر دیے تھے، ایک سیاہ فام باپ کا بیٹا شدید بیمار تھا، اس کے دل کو تبدیل کرنا تھا، بیٹے کی حالت دن بدن خراب ہو رہی تھی لیکن تبدیلی دل کےلئے میسر نہ تھا، جن لوگوں نے موت کے بعد دل کے عطیے کی وصیت کی تھی، ان میں سے کوئی اس وقت تک مرا نہیں تھا، ڈاکٹروں نے بتایا کہ چند دنوں میں دل نہیں ملا تو بچہ مر جائے گا، سیاہ فام باپ کو بچے سے بہت محبت تھی، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا دل اپنے بچے کو دے دے گا، اس نے ڈاکٹروں کو پیشکش کی کہ اس کا سینہ چیر کر اس کا دل نکالا جائے اور اس کے بیٹے کو لگا دیا جائے، وہ زندہ نہیں رہنا چاہتا بلکہ اپنے بیٹے کو زندہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ مرکر بیٹے کے سینے میں دل بن کر اُس کے دل کی دھڑکنوں میں زندہ رہے گا، ڈاکٹروں نے انکار کر دیا، امریکی قوانین کے تحت اس طرح دل کا عطیہ لینے کی اجازت نہیں ہے، باپ نے ہسپتال کے ڈاکٹر وں کو یرغمال بنا لیا اور انہیں کہا کہ اگر وہ اس کا دل نہیں نکالیں گے تو وہ سب کو قتل کر دے گا، اس کی محبت دیکھ کر ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ اس کا دل نکال کر بیٹے کو لگا دیا جائے اسے اپریشن کےلئے بستر پر لٹایا گیا، اچانک دل کا عطیہ عین اسی وقت آگیا اور اس کا اپریشن منسوخ کر دیا گیا، محبت نے دل کی بازی جیت لی _
طیاروں کے حادثات کس تناسب سے ہو رہے ہیں؟ نیوز کے کالم نگار زیب اذکار حسین کی تحقیق کے مطابق ان حادثوں میں ایک خاص ترتیب ہے جس کے باعث مسافر موت کا شکار ہوتے ہیں لیکن موت کے اس راز کو ابھی تک حل نہیں کیا جا سکا، یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اس کائنات میں یہ واقعات محض اتفاقات، محض کھیل تماشا اور محض لہو ولعب ہیں یا ان کے اندر چشم بصیرت کا کوئی سامان بھی ہے؟ کیا ہم اب بھی یہ نہیں سمجھ سکتے کہ زندگی اور موت کے فیصلے دواؤں اور علت و معلول کے قانون سے صادر نہیں ہوتے، مغرب کے بے شمار نفسیات دانوں اور سائنس دانوں نے اس بات کو مجبوراً قبول کیا ہے کیونکہ موت کے ہزاروں واقعات علّت و معلول کے سائنسی اُصول کی تردید کےلئے کافی ہیں، عموماً لوگ اس طرح کے واقعات سے خدا کے وجود کے دلائل اخذ کرتے ہیں، یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں خدا پر ایمان مستحکم ہونے کی بجائے سائنس پر ایمان مستحکم ہوتا ہے کہ دلیل خدا تو سائنس نے مہیا کی ہے، اس طریقے سے آپ سائنسی منہاج کو رد کرنے کے بجائے اُسی منہاج علم میں چلے جاتے ہیں، اس طرح کے واقعات میں صحیح رویہ یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات کے ذریعے سائنس کے اپنے دعووں کی تردید کی جائے کہ سائنس کا قانون علت و معلول (Theory of cause & effect) خود سائنس کے اُصول سے ردّ ہو رہا ہے لہذا یہ سائنسی علم قطعاً قابل اعتبار نہیں، یہ صرف کام چلاتا ہے، ایسا علم جو صرف کام چلاتا ہو، علم نہیں کہلا سکتا، علم قطعی (cortain) حتمی (final) اور مطلق (absolute) ہوتا ہے، جو علم تجربے کے ساتھ بدل جائے، علم نہیں بلکہ ایک ظنّی، قیاسی، عارضی، کام چلانے والی قوت اور صلاحیت ہے، اس موقف کی تفصیل جاننے کےلئے کارل پاپر، فائر بینڈ، لے کاٹوش، کوہن اور اس صدی کے آئن اسٹائن ”فائن مین“ کی کتابیں پڑھ لی جائیں تو بے شمار حقائق سائنسی علم کی قلعی کھول کے رکھ دین گے اگر ان فلاسفہ اور سائنس دانوں کی کتابوں کو پڑھنا آپ کےلئے مشکل ہے تو ایک آسان ترین کتاب What This Thing is Called Science کا مطالعہ کرلیا جائے تو ان تمام مباحث کا خلاصہ آپ کو معلوم ہو جائے گا، سائنسی علم صرف حسی، قیاسی، ظنی، حواسی، طبعی، منطقی، عقلی وجدانی اور اندازے کا علم ہے جو نفس انسانی سے نکلتا ہے اور صرف مادی دنیا کے اُمور سے متعلق کچھ رہنمائی کر سکتا ہے __
نیشنل جیو گرافک چینل پر دکھائی جانے والی ویڈیو (When animals get wild) بھی لوگوں کو یاد ہوگی جس میں ایک بد کردار شخص جو خدا پر یقین نہ رکھتا ہو، جنگل میں شیرنیوں کے نرغے میں پھنس گیا، ایک شیرنی نے اس کا سر اپنے منہ میں لے لیا اور قریب تھا کہ اسے چبا دیتی اور اسے چیر پھاڑ دیتی، اس نے خدا سے دعا کی کہ اگر تو مجھے اس مشکل سے نکال لیں تو میں باقی زندگی اچھے کاموں میں بسر کروں گا، خدا نے دعا قبول کر لی اور شیرنی نے اسے چھوڑ دیا وہ اَدھ موا ہو کر گِر پڑا، جب ہوش آیا تو شیرنیاں غرّا غرّا کر غصے کا اظہار کر رہی تھیں اور اسے وہاں سے بھاگنے پر جلد از جلد مجبور کر رہی تھیں، وہ لڑ کھڑاتا، گھسیٹتا، گرتا پڑتا اپنے گاؤں کی طرف چلنے لگا، سامنے اسے لگڑ بگوں کا لشکر نظر آیا جو اس کو شکار کرنے کےلئے پر تول رہے تھے مذکورہ شخص کو یقین ہوگیا کہ شیرنیوں سے بچ گیا مگر ان سے بچنا مشکل ہے، شیرنیاں اس کے ساتھ ساتھ فاصلے سے چل رہی تھیں اور پیچھے لگڑ بگوں کے غول کہ یہ شیرنیاں ہٹیں تو وہ شکار کو چیر پھاڑ کر کھا جائیں، اسی خوف، اُمید اور بیم کی حالت میں چلتے چلتے اس کا گاؤں آ گیا گاؤں والوں نے دیکھا تو شور مچا دیا، شیرنیاں بھی واپس چلی گئیں اور لگڑ بگے بھی بھاگ گئے، جب اللہ تعالیٰ کسی کی موت لکھ دیتا ہے تو وہ آ جاتی ہے لیکن وقت سے پہلے نہیں آتی، زندگی باقی ہوتی ہے تو درندے بھی زندگی کی حفاظت کےلئے حصار مہیا کرتے ہیں اور انسانوں کو ان کے گھر تک حفاظت سے پہنچا کر مسکنوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں، خون پینے والے جانور بھی اپنا خون دے کر اس نفس کی حفاظت کرتے ہیں جس کی حفاظت خدا مطلوب ہوتی ہے __
حفاظت جس سینے کی اُنہیں منظور ہوتی ہے
کنارے تک اسے خود لا کے طوفان چھوڑ جاتے ہیں
نیشنل جیو گرافک چینل پر Animals are beautifull people فلموں میں OREX کے بچے کی کہانی جو اپنے جھنڈے سے الگ ہوگیا تھا، اسے شیرنی نے اپنی آغوش میں لے لیا، تین ہفتے تک اس کی حفاظت کی، اسے کھلانے اور اپنا دودھ پلانے کی کوشش کرتی رہی، اس کو شیر کے حملوں سے بچانے کےلئے شیر سے نبرد آزما ہوئی اور شیر کے ہاتھوں اس بچے کی ہلاکت پر نہایت غمزدہ ہوئی، شیر اپنے بچوں کے سوا کسی دوسرے یا دوسرے شیروں کے بچوں کو بھی برداشت نہیں کرتا اور شیرنی کے تمام حرامی بچوں کو چن چن کر ہلاک کر دیتا ہے، شیرنی سب سے خون خوار ہوتی ہے اور شیر سے زیادہ پھرتیلی، انسانوں پر حملہ کے جتنے بھی واقعات ہوتے ہیں ان میں زیادہ حملے شیرنیوں کے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کے تحفظ کےلئے دوسرں کی زندگی عدمِ تحفظ کا شکار بنا دیتی ہیں لیکن وہی شیرنی OREX کے بچے کےلئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پناہ مہیا کرتی ہے تو کیوں؟ _
یوٹیوب ڈاٹ کام پر Lion versus bafelo Amazing اور Lion Vedioes attack میں وہ منظر لوگوں کو یاد ہو گا جب ایک بھینسا غلطی سے اپنے بچے کے ساتھ شیر کی کچھار میں چلا گیا، اس کا بچہ وہیں رہ گیا، بھینسا بھاگ گیا، بچہ یرغمال ہوگیا دریا میں گر گیا، شیروں نے باہر نکالنے کی کوشش کی، مگرمچھ آ گئے، شیر بھینسے کے بچے کو اوپر لے آئے، اچانک سینکڑوں بھینسوں نے شیروں پر حملہ کر دیا اور اپنے بچے کو چھین کر لے گئے، مگر مچھ، شیر اور پانی، بھینسے کے بچے کو نہیں مار سکے، اللہ تعالی کی طرف سے زندگی عطاء ہوتی ہے اور موت بھی عطاء ہوتی ہے، یہ حادثہ نہیں ہے لیکن خدا پر ایمان کے بغیر ان واقعات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، کوئی تعبیر نہیں کی جا سکتی، سائنسی ذہن رکھنے والا مزاج ان واقعات میں کوئی روحانیت نہیں پاتا، اسے محض اتفاقی حادثہ یا خوش قسمتی یا Unknown cause سمجھ کر فراموش کر دیتا ہے _
امریکہ کی فیڈرل کورٹ میں چلنے والا تاریخی مقدمہ جس پر ہال ہی میں معرکہ آراء فلم بنائی گئی ہے جس کا نام Exorcism of amely Rose ہے، اس لڑکی ایملے روز پر جنات کا سایہ تھا ایک پادری نے اس کا علاج کیا، علاج کے دوران وہ مر گئی، پادری پر قتل کا مقدمہ قائم کیا گیا، اس کے دفاع کےلئے ایک سیکولر ایڈوکیٹ عورت نے جو خدا پر یقین نہیں رکھتی، اس کا مقدمہ لڑا، لڑکی کے خطوط، آوازوں، علاج کے دوران پیش آنے والے واقعات، معاملات کی ویڈیو دیکھنے کے بعد امریکہ کے ممتاز ماہر نفسیات داں کی موجودگی میں اس پورے سانحے کی جانچ پڑتال سن اور جانچ کر خود ششدر رہ گئے، ایک ماہر نفسیات نہایت مذہبی ہوگیا _
عہد حاضر کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دوا ایجاد کرنے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے، موت تو اپنے وقت پر آتی ہے، خواہ بیمار ی کی دوا موجود ہو یا نہ ہو، استعمال کی جائے یا نہ استعمال کی جائے لیکن دوا اذیت و تکالیف میں افاقہ کر سکتی ہے اگر اللہ تعالی کو منظور ہو کیونکہ بہت سی عام تکالیف کے درد، درد کی نہایت مجرب اور قیمتی دوائیں بھی دور نہیں کر سکتیں، دوا محض تکلیف اور مرض کا علاج ہے، مرضِ ضعف اور موت کا علاج نہیں، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ کسی دواء نے کسی نفس کو موت سے نجات دی ہے، وہ قرآن کی آیاتِ موت سے واقف نہیں، موت کا وقت مقرر ہے، کوئی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں مر سکتا و َما كانَ لِنَفسٍ أَن تَموتَ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ كِتـٰبًا مُؤَجَّلًا و َمَن يُرِد ثَوابَ الدُّنيا نُؤتِهِ مِنها و َمَن يُرِد ثَوابَ الاخِرَةِ نُؤتِهِ مِنها وَسَنَجزِى الشّـٰكِرينَ (آل عمران: ۱۴۵) زندگی اور موت ہم دیتے ہیں وَ إِنّا لَنَحنُ نُحي و َنُميتُ وَ نَحنُ الوٰرِثونَ (الحجر: ۲۳) اگر رسول مرجائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے وَ ما مُحَمَّدٌ إِلّا رَسولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِين ماتَ أَو قُتِلَ انقَلَبتُم عَلىٰ أَعقـٰبِكُم و َمَن يَنقَلِب عَلىٰ عَقِبَيهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيـًٔا و َسَيَجزِى اللَّهُ الشّـٰكِرينَ (آل عمران: ۱۴۴) اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی تو وہ اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے قُل لَو كُنتُم فى بُيوتِكُم لَبَرَزَ الَّذينَ كُتِبَ عَلَيهِمُ القَتلُ إِلىٰ مَضاجِعِهِم (آل عمران: ۱۵۳) __
کالی موت (Black Death) کے بعد ہونے والی جدید سائنسی ترقی کے بعد عالم مغرب میں ہی نہیں، اب عالم اسلام میں بھی راسخ العقیدہ لوگوں کا خیال ہے کہ دوائیں موت سے بچاتی ہیں، یہ جملہ عام ہے کہ ”مغرب کی طبی ترقی کے باعث وہاں لوگوں کی عمریں بڑھ گئی ہیں اور شرحِ اموات کم ہوگئی ہے“ حالانکہ یہ ضعیف الاعتقادی ہے گو یا زندگی و موت کا سبب خود انسان ہے اور موت کا اختیار بھی انسانوں نے خدا سے لے کر انسانوں کو منتقل کر دیا ہے، یہ عہدِ جدید کے سائنسی ذہن کا المیہ ہے خواہ وہ اسلامی ہی کیوں نہ ہوں، یہ ایمان رکھنے والے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیتے کہ مانع حمل ادویات استعمال کرنے کے باوجود لاکھوں حرامی بچے پھر بھی پیدا ہوجاتے ہیں تو کیوں؟ اسقاط اُسی بچے کا ممکن ہوتا ہے جس کی زندگی امر ربی کے تحت مطلوب نہیں ہوتی اور جس وجود کو زندگی بخشنا مشیت ایزی ہو تو کنواری مائیں لاکھوں مانع حمل ادویات کھا لیں، گناہ ظاہر ہوتا ہے اور ولادت ہو کر رہتی ہے، یہ مغرب کے تمام ڈاکٹروں کا عینی مشاہدہ ہے، اس کے باوجود زندگی اور موت کو صرف اور صرف دواء، ڈاکٹر، ہسپتال اور مشینوں پر منحصر کر دیا گیا ہے، دوسرے لفظوں میں زندگی اور موت کا اختیار خدا کے ہاتھوں سے لے کر ماہرین طب کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے __
فکر و نظر میں یہ تبدیلی ہی جدیدیت ہے جو اسلامی معاشروں اور اسلامی تحریکوں میں تیزی سے نفوذ کر رہی ہے، عام طور پر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ مغرب کی جدید طبی ترقی کے باعث بیماریوں پر قابو پا لیا گیا ہے، اس لئے وہاں امراض سے مرنے والوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے اور دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے حالانکہ یہ غلط استدلال ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی ساٹھ فیصد آبادی ایشیاء میں آباد ہے، اس آبادی میں غربت کے باعث مغربی دواؤں کا استعمال بہت کم ہے، خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق اربوں روپے کی دوائیں اس خطے میں مغرب نے مفت تقسیم کیں لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا، مشرق نے جدیدیت کو ذہنی اور قلبی طور پر ابھی تک قبول نہیں کیا لہذا جسمانی و روحانی طور پر مشرق کی یہ سر زمین افزائش نسل میں مصروف ہے، اس میں مغرب کی طبی ترقی کا کوئی حصہ نہیں، خود مغرب میں ان دواؤں کے باعث شرحِ پیدائش منفی ہوگئی ہے کیونکہ خدا کی رضاء یہی ہے کہ مغرب کو اسقاط کے عذاب کے ذریعے سبق دیا جائے، کل تک مغرب مرنے والوں کی موت پر غمزدہ تھا، اب بڑھتی ہوئی آبادی پر افسردہ ہے، اسے دکھ ہے کہ موجودہ چھ ارب آبادی میں اس کی تعداد سب سے کم ہے، صرف تین فیصد، تمام بڑی آبادیاں مغرب دشمن ہیں اور مشرقی خطوں میں آباد ہیں لہذا اب وہ آبادی میں اضافے کو دنیا کےلئے ایک شدید خطرے کے طور پر پیش کر رہا ہے تا کہ اپنی مخالف تہذیبوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو تہس نہس کرنے کےلئے نئی حکمت عملی وضع کرے _
۱۹۷۵ء میں اندرا گاندھی نے امریکہ کی اسی حکمت عملی کے تحت ہندوستان کی آبادی کو روکنے کےلئے ہنگامی حالت کا نفاذ (ایمرجنسی) کرکے دو سال تک پچھتر لاکھ مردوں کی جبراً نس بندی کی تا کہ وہ بچے نہ پیدا کر سکیں، امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی جمہوریت میں جمہور کے ساتھ یہ ظالمانہ رویہ اختیار کیا گیا اور جمہوریت کے عشق میں مبتلاء سیکولر اور اسلامی مفکرین اس حادثے سے لا علم رہے، چین میں آج بھی ایک بچے سے زیادہ بچے پیدا کرنے کےلئے اجازت نہیں ہے لہذا صرف لڑکے پیدا ہو رہے ہیں، لڑکیوں کو رحم کی قبر میں ہی دفن کر دیا جاتا ہے __
ڈسکوری چینل اور دیگر چینل پر دکھائی جانے والی X.Files کی ڈاکو منٹری فلمیں ارسائی فیکٹر (Pcsy factor) پر مبنی دستاویزی فلمیں اس کائنات میں سائنس کی خدائی کے انکار کا اشتہار ہیں، X-files کی دستاویزی فلموں میں سے ایک اہم فلم میں دو امریکی ریاستوں کے ایک مرد اور ایک عورت کا سچا واقعہ دکھایا گیا کہ شوہر نے عورت سے پانی طلب کی لیکن وہ پانی لے کر نہیں آئی، وہ گھر سے غائب ہو گئی، گمشدگی کی رپورٹ لکھوائی گئی، بعد میں یہی عورت دوسری ریاست (جو کئی سو کلو میٹر دور تھی) میں مل گئی، وہاں پولیس نے اسے تنہاء گھومتے ہوئے دیکھا، عین اسی وقت جس وقت وہ اپنے شوہر کیلئے پانی لینے چلی تھی، اسے دوسری ریاست میں قانون کے محافظوں نے حفاظتی تحویل میں دے دیا، تھامس کوہن (Kuhan) کے شاگرد نے اس واقعے کی یہ تعلیل بیان کی کہ Black hole میں چلی گئی تھی لہذا زمان ومکاں کی وسعتیں اس کیلئے سمٹ گئیں، سوال یہ ہے کہ صرف وہ کیوں بلیک ہول میں گئی اس کا شوہر کیوں نہیں گیا؟ یہ وہ اسرار ہیں جن کے سامنے سائنس بے بس ہے، اس کا قانون علت و معلول معذور محض ہے، وہ اپنے مفروضات یعنی عارضی مسلمات کا دفاع کرنے سے قاصر ہے، بلیک ہول اگر موجود ہے تو گردشِ زمین، چکر، زمان و مکاں کی حدود قیود کے تمام فلسفے سوالیہ نشان بن جاتے ہیں، زمین گردش کر رہی ہے یا نہیں؟ اس کا چکر پورا ہونے سے پہلے انسان چکر مکمل کر کے سفر سے واپس آ جائے یا وقت کی رفتار سے ما وراء ہو کر سفر وقت سے پہلے طے کرے، یہ کس طرح ممکن ہے؟ لہذا یہ تصور کہ زمین گردش کر رہی ہے، خود ایک حتمی حقیقت سچائی نہیں ہے محض اضافی (Relative) حقیقت ہے جو یقیناً خود کسی اور حقیقت پر منحصر ہوگی جس سے ہم فی الحال واقف نہیں __
پاپر کے فلسفے Falsification کے تحت یہ یقین عہد حاضر کی سائنس کو حاصل ہے کہ جو کچھ سائنسی نظریہ بیان کیا گیا ہے، وہ صرف اس وقت تک درست ہے جب تک کوئی دوسرا سائنسی نظریہ اس کی تردید نہ کر دے اور سائنس کی ترقی کا سفر سائنس کو رَف کرنے کے نتیجے میں آ گے بڑھتا ہے، ہمارے بعض جدید و قدیم علماء کے یہاں یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے کہ سائنس کو مسلمان کیا جائے یا اسلام کو سائنسی مذہب قرار دیا جائے؟ علماء کا ایک گروہ سائنس کو مسلمان کرنا چاہتے تھے، اس گروہ میں مولانا احمد رضا خاں بریلوی، علامہ سید سلیمان ندوی اور علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہم اللہ وغیرہ شامل تھے، اسی جذبے کے تحت علامہ طنطاوی مرحوم کی تفسیر کے بارے میں علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ اور علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے نہایت گرم جوشی کا مظاہرہ فرمایا، مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ اور اسلامیہ کالج لاہور کے استاد پروفیسر حاکم علی کی خط وکتابت سے جناب بریلوی کا نقطہ نظر سامنے آتا ہے، فاضل بریلوی کے فقہی مقام کی شہادت ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے! ”جزئیات فقہ پر اُن کو جو عبور حاصل تھا، ان کے زمانے میں اس کی نظیر نہیں ملتی“ پروفیسر حاکم علی نے فاضل بریلوی کو خط لکھا ”غریب نواز! کرم فرما کر میرے ساتھ شامل ہو جاؤ تو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ سائنس کو اور سائنس دانوں کو مسلمان کیا ہوا پائیں گے“ اس کے جواب میں فاضل بریلوی نے ایک کتاب ”نزولِ آیات قرآن بہ سکون زمین و آسمان“ تحریر کی اس کتاب کے آخر میں پروفیسر حاکم علی کی خواہش کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں ”محب فقیر! سائنس یوں مسلمان تو نہ ہوگی کہ اسلامی مسائل کو آیات و نصوص میں تاویلات دور از کار کر کے سائنس کے مطابق کر دیا جائے، یوں تو معاذ اللہ اسلام نے سائنس قبول کی نہ کہ سائنس نے اسلام“ سوال یہ ہے کہ کیا واقعتاً سائنس کسی مذہب کی قبولیت کےلئے تیار ہے؟ کیا سائنس کی مابعد الطبیعات اور اس کی علمتِ مذہبی مابعد الطبیعات اور علمیت کو قبول کر سکتی ہے؟ کیا سائنس کے تصور علم حقیقت علم اور ماہیت علم میں مذہب کے تصورِ علم کی کوئی ادنٰی سی بھی گنجائش ہے؟ سائنس کے تصور علم میں علم وہ ہے جس میں شک کیا جا سکے، جس کی تردید کی جا سکے اور جس علم کو بالکل اسی طریقے سے حاصل کیا جا سکے جس طریقے سے وہ علم کسی اور نے حاصل کیا اگر کوئی علم کی تعریف پر نہیں اترتا تو مغربی تصورِ علم اور سائنسی علم منہاج میں یہ علم نہیں، جہل ہے لہذا سائنس کی نظر میں دین اور مذہب سے حاصل ہونے والا علم جہل ہے تو سائنس نعوذ باللہ اس جہل کو کیوں قبول کرے گی، نہ مذہب سائنس کے اس تصور جہل پر مبنی علم کو قبول کرے گا، سائنسی اور مذہبی منہاج، دونوں ایک دوسرے کو قبول نہیں کر سکتے، اسی لئے مذکورہ بالا علماء کرام کے جانشینوں میں سائنس کو مسلمان کرنے کےلئے کوئی بڑا اہل علم نہ کھڑا ہو سکا، بعض نے کچھ کوششیں کیں لیکن یہ کوششیں فلسفے، سائنس اور فلسفہ سائنس کے علماء کی نظروں میں وقعت کی حامل نہ قرار پا سکیں، یہ علماء بھی جدید سائنس اور اسلام کے تعلق پر کوئی اہم تحریر ضبط تحریر میں نہ لا سکے و گرنہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں وہ بصیرت دی تھی کہ وہ سائنس کے بیخے اُدھیڑ کر رکھ دیتے _